مقبوضہ بیت المقدس ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) مقبوضہ بیت المقدس شہر کے داخلی دروازے پر لاکھوں کی تعداد میں حریدی یہودیوں نے قابض اسرائیلی فوج میں جبری بھرتی کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر قابض پولیس نے شہر کے داخلی راستے اور مرکزی شاہراہیں بند کر دیں۔
قابض اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس احتجاج کو ’ملین مارچ‘ کا نام دیا گیا، جس میں ہزاروں حریدی طلبہ کی گرفتاری کے خلاف عوامی غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ ان طلبہ نے مذہبی تعلیمات کے اداروں میں رہتے ہوئے فوجی خدمت سے انکار کیا تھا۔
قابض اسرائیل کے چینل 14 کے مطابق تقریباً دو لاکھ حریدی مظاہرین پورے ملک سے القدس پہنچے تاکہ حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے جبری بھرتی کے نئے قانون کو مسترد کر سکیں۔ مظاہرے کے باعث شہر کی سڑکوں پر ٹریفک جام اور بڑے پیمانے پر رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا ’’قوم تورات کے ساتھ ہے‘‘ اور ’’دینی مدارس کا بند ہونا یہودیت کے خاتمے کے مترادف ہے‘‘۔ مظاہرہ منظم رکھنے کے لیے منتظمین کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب بعض افراد نے قابض حکومت اور فوج کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔ منتظم کمیٹی نے وضاحت کی کہ سرکاری نعرے پہلے سے طے شدہ تھے اور کوئی اضافی نعرے ذاتی آراء کی نمائندگی کرتے ہیں۔
احتجاج کے باعث شاہراہ نمبر 1 کو ’’اللطرون‘‘ اور ’’غفعات شاؤل‘‘ کے درمیانی حصے میں بند کر دیا گیا اور ٹریفک کو شاہراہ نمبر 16 کی طرف موڑ دیا گیا۔ اسی طرح یافا، ہرتسل، شزر اور غفعات شاؤل کی سڑکیں بھی بند کر دی گئیں۔
قابض اسرائیلی ریلوے کمپنی نے اعلان کیا کہ القدس کی مرکزی اسٹیشن ’’یتسحاق نافون‘‘ دوپہر دو بجے کے بعد مسافروں کے لیے بند رہے گی تاکہ ہجوم اور افراتفری سے بچا جا سکے۔ اس فیصلے نے مظاہرین میں اشتعال پیدا کیا اور انہوں نے دھمکی دی کہ اگر پابندیاں برقرار رہیں تو وہ احتجاج کو پورے ملک میں پھیلا دیں گے، بشمول ایالون ہائی وے اور شاہراہ نمبر 6۔
حریدی جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کنیسٹ میں جبری بھرتی کے قانون کو ناکام بنانے کے لیے دباؤ جاری رکھیں گی کیونکہ ان کے نزدیک مذہبی شناخت اور دینی معاشرے کا تحفظ ’’سرخ لکیر‘‘ ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا۔
قابض اسرائیل کی سپریم کورٹ نے 25 جون سنہ2024ء کو فیصلہ دیا تھا کہ حریدی نوجوانوں پر بھی فوج میں بھرتی لازمی ہے اور ان مذہبی اداروں کو مالی امداد نہیں دی جا سکتی جن کے طلبہ فوجی خدمت سے انکار کرتے ہیں۔ اسی فیصلے کے بعد یہ احتجاجی تحریک زور پکڑ گئی۔
حریدی یہودی قابض اسرائیل کے کل دس ملین آبادکاروں میں تقریباً 13 فیصد ہیں۔ وہ فوجی خدمت کو اپنی مذہبی زندگی کے خلاف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیکولر معاشرے میں ضم ہونا ان کی مذہبی شناخت اور اقدار کے لیے خطرہ ہے۔
دہائیوں سے یہ طبقہ فوجی خدمت سے بچنے کے لیے مختلف قانونی جواز پیش کرتا رہا ہے۔ مذہبی تعلیم کے بہانے انہیں ہر سال التواء ملتا رہا یہاں تک کہ 26 سال کی عمر میں وہ مستقل چھوٹ حاصل کر لیتے ہیں۔
قابض حکومت کی مخالفت کرنے والی جماعتوں نے بنجمن نیتن یاھو پر الزام لگایا ہے کہ وہ ’’شاس‘‘ اور ’’یہدوت ہتوراہ‘‘ جیسی مذہبی جماعتوں کو خوش کرنے کے لیے ایک نیا قانون منظور کرانا چاہتے ہیں جو حریدیوں کو فوجی خدمت سے مکمل طور پر مستثنیٰ قرار دے گا۔ یہ دونوں جماعتیں اس وقت حکومت سے علیحدہ ہیں لیکن اس قانون کے بعد دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
کنیسٹ کی خارجہ و سکیورٹی کمیٹی کے سربراہ بوعاز بسموت نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے ایک نئی مسودہ قانون پیش کریں گے جس کے تحت حریدی نوجوانوں کو فوجی خدمت سے استثنا دیا جائے گا۔ اس قانون کے مطابق فوج میں شمولیت کی لازمی شرح ختم کر دی جائے گی اور انہیں ’’سول سکیورٹی سروس‘‘ کے نام پر امدادی یا دینی تنظیموں جیسے ’’زاکا‘‘ میں کام کرنے کی اجازت ہوگی، جسے فوجی خدمت کے متبادل کے طور پر شمار کیا جائے گا۔
نئی مسودہ میں حریدی کی تعریف بھی نرم کر دی گئی ہے، اب ایسے نوجوان بھی اس زمرے میں آئیں گے جنہوں نے صرف دو سال کسی مذہبی ادارے میں تعلیم حاصل کی ہو، جس سے معافی پانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔
مزید برآں، قانون کے تحت صرف نئے بھگوڑوں کی ڈرائیونگ لائسنس معطل کی جا سکے گی، ماضی کے افراد پر یہ شرط لاگو نہیں ہوگی۔ اسی طرح مذہبی اداروں میں حاضری ثابت کرنے کے لیے فنگر پرنٹ کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے اور اس کی جگہ لچکدار الیکٹرانک نظام نافذ کیا جائے گا۔
قانون کے مطابق بیرون ملک سفر پر پابندی 26 سال کی عمر تک برقرار رہے گی، جس کے بعد سفر کی اجازت ہوگی۔
یہ نیا قانون قابض اسرائیلی معاشرے میں مزید تقسیم پیدا کر رہا ہے۔ حریدی جماعتیں حکومت میں اپنی شمولیت کو اس قانون کی منظوری سے مشروط کر رہی ہیں، جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ اقدام فوجی سروس سے اجتماعی فرار کو قانونی جواز دے گا اور اسرائیلی معاشرے میں مذہبی و سیکولر طبقات کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کرے گا۔