اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ یہودیوں کی جانب سے حرم قدسی کے کسی حصے پر حملہ براہ راست مسجد اقصیٰ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز شام کے دارالحکومت دمشق میں یہودیوں کی طرف سے مسجد اقصیٰ پر حملوں کے حوالے سے منعقدہ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوںنے یہودی فوج کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی بجلی معطل کرنا، اذان سے روکنے، قبلہ اول کے دروازے بند کرنے اور یہودی آباد کاروں کو مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی اجازت دینے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہودیوں کے تمام ترمنصوبوں کا مقصد مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا ہے۔یہودیوں کی طرف سے موجودہ حملے اور قبلہ اول پر فوج کشی ان ہی مذموم مقاصد کے تحت ہو رہی ہے۔ خالد مشعل نے کہا کہ ان کے ہاں القدس کی ایک ایک اینچ فلسطینی عوام کی ہے، اس کے کسی حصے پریہودیوں کا قبضہ قطعی طور پر ناجائز اور غیر قانونی ہوگا جس کی آزادی کے لیے جنگ جاری رہے گی۔ القدس پر صرف مسلمانوں اور مسیحی برادری کے باشندوں کا حق ہے، صہیونیوں کو اس پاک سرزمین پر کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حماس کے راہنما نے امت مسلمہ اور عالم عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ یہودیوں کی مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ریشہ دوانیوں کا نوٹس لیں اور بیت المقدس کی مکمل آزادی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کردار ادا کریں۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے حامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پرنام نہاد امن بات چیت کا راستہ ترک کرکے قبلہ اول کی آزادی کے لیے فلسطینی عوام کے ہم آواز ہو جائیں تاکہ یہودیوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ انہوںنے فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ تین سال سے اسرآئیل کی گود میں بیٹھنے اور اس کے ساتھ ہر قسم کے سیکیورٹی تعاون سمیت اس کے ساتھ نام نہاد معاہدوں سے کیا حاصل ہوا۔ کیا اسرائیل فلسطین کے کسی علاقے کو چھوڑ نے پر تیار ہوا ہے۔ کیا قبلہ اول کی آزادی کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو اس بے سود کام میں وقت ضائع کرنے کے بجائے فلسطینی مزاحمت کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔ فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے سلسلے میں خالد مشعل نے کہا کہ حماس دل سے مفاہمت کے لیے کوشاں ہے اور تنظیم پر مفاہمت مخالف کوششوں کے الزامات قطعی بے بنیادی ہیں، حماس کی خواہش ہے کہ مفاہمت کا عمل مستقل بنیادوں پراستوار ہو اور اس کے فلسطینی سیاست پر دور رس مثبت اثرات مرتب ہوں۔ حماس کے راہنما نے کہا کہ فلسیطنی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے سلسلے میں بریک تھرو نہ ہونے کا ایک سبب مستقبل کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل اور طریقہ کار میں اختلافات ہیں، انہی اختلافات کی وجہ فلسطینی جماعتوں میں کوئی مفاہمت نہیں ہوسکی اور نہ مصالحت کا عمل آگے بڑھ سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فتح مفاہمت کی کوششیں اس لیے کر رہی ہے تاکہ غزہ پردوبارہ قبضہ کیا جائے، دھاندلی کے تحت انتخابات کرائے جائیں اور فلسطین پرایسی قیادت مسلط کی جائے جو اسرائیل کے ساتھ نام نہاد مذاکرات کی اولیت دے۔ جبکہ حماس فتح کے ان مطالبات کو تسلیم نہیں کرتی۔ خالد مشعل نے کہا کہ حماس کو فلسطین میں انتخابات سے کوئی خوف نہیں، کیونکہ اس کی تنظیمی جڑیں عوام میں گہری اور مضبوط ہیں تاہم حماس انتخابات کو قانون اور آئین کے دائرے کے اندر ناگزیر قرار دیتی ہے۔