امریکا نے اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں مسجد ابراہیمی، مسجد بلال اور القدس کی فصیل کو اپنا تاریخی ورثہ قرار دینے سے متعلق اعلان کو اشتعال انگیز کارروائی قرار دیا ہے۔ حالیہ تنازعے پر یہ پہلا امریکی ردعمل ہے۔
امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان پی جے کرولی نے جمعرات کے روزخصوصی بیان میں کہا کہ اس بات سے قطع نظر کہ اسرائیل کا یہ اقدام اشتعال انگیز ہے تاہم اسے پرتشدد کارروائیوں اور امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے جواز کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے۔
پی جے کرولی نے کہا کہ مشرق وسطی کے متعدد گنجلک اور مشکل معاملات کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی بہتر طور پر حل ہو سکتی ہے۔ غلط فہمی کی بنا پر ان معاملات کو یکطرفہ اقدامات اٹھا کر حل نہیں کیا جا سکتا۔
مسٹر کرولی نے مزید کہا کہ امریکا، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ متنازعہ امور کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ پر حل کیا جائے۔ ان مذاکرات کے ذریعے مشرق وسطی کو درپیش مسائل کے حل میں مدد ملے گی اور یہی سب کے لئے مفید ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے مشرق وسطی امن مذاکرات جلد شروع ہونے سے متعلق بیان کی وضاحت کرتے ہوئے مسٹر کرولی نے کہا کہ اب حالات پرسکون ہو گئے ہیں اور امن مذاکرات شروع کئے جا سکتے ہیں۔
ترجمان کے بہ قول امن مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ اسرائیل اور فلسطین نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن، لبنان اور شام کو بھی انہی خطوط پر پیش رفت کرتا دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ حالات چند دنوں میں بہتر ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات کی جانب پیش رفت امریکا بھی کرا سکتا ہے تاہم بنیادی طور پر اس کا فیصلہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو علاقے کے دوسرے ممالک کی حمایت سے خود کرنا ہے۔ مسٹر کرولی نے کہا کہ امریکا کا پیغام واضح ہے کہ جتنی جلدی ہم مذاکرات شروع کریں گے اتنی ہی جلد مسئلے کا جامع اور منصفانہ حل تلاش کر سکیں گے، جو یقینا تمام لوگوں کے لئے مفید ہو گا۔