مصر میں سابق وزیرداخلہ حبیب العادلی کے خلاف ساحلی شہر اسکندریہ میں ایک عیسائی گرجا گھر میں ہوئے دھماکوں میں ملوث ہونے کے شواہد کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں. مرکز اطلاعات فلسطین کےمطابق حبیب العادلی کی برطرفی کے بعد ان کے کئی اسیکینڈل سامنے آئے ہیں تاہم منگل کو ان کےخلاف مصری پراسیکیوشن جنرل انٹرنیٹ پرشائع ان الزامات کی تحقیقات شروع کر رہا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ عیسوی سال کے آغاز میں اسکندریہ کے قدسسین چرچ پر حملے میں خود وزیرداخلہ ملوث تھے. رپورٹس کے مطابق سابق وزیرداخلہ کا گرجا گھر میں ہونے والے تباہ کن حملوں میں ہاتھ تھا. ان شواہد کی روشنی میں انہوں نے مصری اٹارنی جنرل کو ان واقعات کی از سرنو تحقیقات کی درخواست کے بعد پراسیکیوشن آفس نے درخواست منظور کرتے ہوئے آج منگل کو اس کی جوڈیشل انکوائری شرو ع کرنے کا اعلان کیا ہے. خیال رہے کہ نئے عیسوی سال کی تقریبات کے دوران ساحلی شہر اسکندریہ کے گرجا گھر میں ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 25 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے.سابق وزیرداخلہ نے واقعات کی ذمہ داری القاعدہ کی ایک ذیلی شاخ جیش الاسلام پرعائد کی تھی جو بہ قول سابق وزیر کے فلسطینی شہر غزہ کی پٹی میں سرگرم ہے.دوسری جانب فلسطینی حکومت نے مصری الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ میں اس نام کی کوئی تنظیم سرے سے موجود ہی نہیں. بعد ازاں برطانوی انٹیلی جنس کےحوالے سے کچھ خبریں انٹرنیٹ پر شائع ہوئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ اسکندریہ گرجا گھر میں دھماکوں میں مصری محکمہ داخلہ اور محکمے کے اہلکار ملوث تھے. میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی سراغ رساں اداروں کا کہنا ہے کہ سابق وزیرداخلہ حبیب العادلی نے اپنے زیرکنٹرول 22 اعلیٰ افسران اور کئی دیگرافراد پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا تھا جس میں بعض مذہبی جماعتوں کے ارکان، سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکار منشیات فروش اور دیگر جرائم پیشہ افراد کو شامل کیا گیا تھا.اس گروہ کی تشکیل کا مقصد ملک میں کسی بھی کشیدگی کی صورت میں امن امان کی صورت حال کو مزید تاراج کرنے کے لیے تمام بڑے شہروں میں لوٹ مار کرنا اور تخریب کاری شامل تھی . برطانوی سراغ رساں اداروں کا کہنا ہے کہ وزیرداخلہ حبیب العادلی کی ہدایت پر ایک سرکردہ عہدیدار فتحی عبدالواحد نے 11 دسمبر سے احمد محمد خالد نامی ایک شدت پسند سے رابطے شروع کیے تھے. احمد خالد تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونےکی بنا پر گیارہ سال تک جیل میں بھی رہ چکا ہے. رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ عبدالواحد کے رابط کرنے کے بعد خالد نے جنداللہ نامی ایک کالعدم مذہبی گروہ سے رابطہ کیا اور انہیں نئے عیسوی سال کے موقع پراسکندریہ چرچ پر حملوں کے لیے تیار کیا.جنداللہ نامی گروہ نے ان دھماکوں کے لیے تیاری کی حامی بھرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کے پاس غزہ سے لایا گیا بارودی مواد موجود ہے جسے دھماکوں میں استعما ل کیا جا سکتا ہے.