مغربی کنارے کے ضلع جنین میں فلسطینی مزاحمتی تحریک ’’جہاد اسلامی‘‘ سے تعلق رکھنے والے نوجوان سالم سمودی کی گزشتہ روز اسرائیلی فوجی چیک پوسٹ پر حملے کے دوران شہادت کے بعد صہیونی فوج نے عباس ملیشیا کے ساتھ مل کر ’’جہاد اسلامی‘‘ کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ روز سالم سمودی نامی فلسطینی کو شہید کرنے کے باوجود اسرائیلی فوج کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور اس نے پورے ضلع جنین میں مزاحمت کاروں کو پکڑنا شروع کر دیا ہے۔ تحریک جہاد اسلامی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ رات گئے صہیونی فوج کی پندرہ گاڑیوں نے ضلع کے مختلف علاقوں پر حملے کر کے بڑے پیمانے پر جہاد اسلامی کے کارکنوں کی تلاش کی۔ ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے ٹاؤن کی مشرقی کالونی میں شہری علی جمیل زاید کے گھر کو منہدم کر ڈالا اور اس کے 29 سالہ بیٹے عبد اللہ کو گرفتار کر لیا جو جہاد اسلامی کا ایک کارکن تھا۔ اسی طرح ایک اور کارکن 18 سالہ طارق زیاد سمودی کو بھی گھر کی تلاشی اور توڑ پھوڑ کے بعد حراست میں لے لیا گیا۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج کے ساتھ ساتھ عباس ملیشیا نے بھی علاقے میں بڑے پیمانے پر جہاد اسلامی سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم وطنوں کے خلاف مہم شروع کر دی۔ ہمارے نمائندے کے مطابق عباس ملیشیا نے کل ہی ’’جہاد اسلامی‘‘ کے کم از کم پانچ حامیوں کو حراست میں لے لیا تھا جن میں مراد نواھضہ، عماد فریحات، ادیب سمودی اور محمد زاید شامل ہیں۔ علاوہ ازیں دسیوں افراد کو تفتیش کے لیے طلبی کے نوٹس بھی رات ہی جاری کر دیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہید ہونے والے سالم سمودی کے جنازے کے موقع پر بھی عباس ملیشیا کے ناروا سلوک سے فلسطینیوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ فتح حکومت کے زیر انتظام ملیشیا نے نہ صرف جنازے کے شرکاء کو جہاد اسلامی کے جھنڈے لہرانے سے روکا بلکہ ان کی شہادت کے اعلان کے لیے مساجد کے اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ملیشیا نے جنازہ سے قبل ہی تحریک کے کارکنوں کو پکڑنا شروع کردیا تھا تاکہ کم سے کم لوگ جنازے میں شریک ہو سکیں۔ عباس حکومت کی سیکورٹی فورسز نے تحریک کے رہنما خضر عدنان کو جنازے کے موقع پر خطاب سے بھی روک دیا جس سے شرکاء جنازہ میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ جہاد اسلامی کے ایک رہنما نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے نمائندے کو یہ بھی بتایا ہے کہ عباس ملیشیا چار سال اسرائیلی عقوبت خانوں میں رہنے والے شہید سالم سمودی سے متعدد بار تفتیش کر کے اپنے قبضے میں اسلحہ اس کے سپرد کرنے کا دباؤ بھی ڈال چکی تھیں۔