لبنان – (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے کہا ہے کہ مزاحمت سے اسلحہ چھیننے کی آوازیں دراصل ایک امریکی صہیونی منصوبے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے لبنانی ریاست پر زور دیا کہ جب تک لبنان پر قابض اسرائیل کی جارحیت جاری ہے اس حساس معاملے کو مؤخر رکھا جائے۔
اتوار کے روز حزب اللہ کے بانی رہنما محمد حسن یاغی کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نعیم قاسم نے کہا کہ اسلحہ صرف ریاست کے ہاتھ میں محدود کرنے کی بحث امریکی ٹائمنگ کے مطابق آگے بڑھائی جا رہی ہے جس کا مقصد مزاحمت کا خاتمہ کرنا، لبنان کے ایک حصے کو ہتھیانا اور باقی ملک کو واشنگٹن اور تل ابیب کا تابع آلہ کار بنانا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ جاری صہیونی حملوں کے دوران اسلحہ چھیننے کا معاملہ اٹھانا عملاً قابض اسرائیل کے مفاد میں کام کرنے کے مترادف ہے۔ نعیم قاسم نے ان دعوؤں کو موجودہ مرحلے میں غیر منطقی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جب تک خلاف ورزیاں اور حملے جاری ہیں اس فائل کو مؤخر کیا جائے۔
نعیم قاسم نے زور دے کر کہا کہ اسلحہ چھیننے کا مطالبہ مزاحمت اور عوام کے درمیان فتنہ کھڑا کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے، تاکہ قابض اسرائیل ان پانچ مقامات پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکے جن پر وہ اب بھی قابض ہے، بغیر کسی احتساب کے قتل و غارت جاری رکھے، لبنان کی عسکری صلاحیتوں کو نشانہ بنائے، ملک کے ایک مضبوط طبقے کو کمزور کرے اور تحریک امل کے ساتھ اختلافات کو ہوا دے۔
انہوں نے کہا کہ لبنان آج عدم استحکام اور شدید بحران کے عین بیچ کھڑا ہے اور اس تمام صورت حال کی بنیادی ذمہ داری امریکہ اور قابض اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔
نعیم قاسم نے لبنانی حکومت کی کارکردگی پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بغیر کسی قیمت کے رعایتیں دیں جبکہ دشمن نے اپنی کسی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست قابض دشمن کی متنوع خلاف ورزیوں کے مقابلے میں کوئی حقیقی مؤقف یا سنجیدہ مزاحمت اختیار نہیں کر رہی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ دریائے لیطانی کے جنوب میں لبنانی فوج کی تعیناتی اسی صورت ممکن تھی جب قابض اسرائیل سیز فائر معاہدے کی شقوں پر عمل کرتا۔ نعیم قاسم نے کہا کہ آج لبنان سے کسی اقدام کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا جب تک صہیونی دشمن اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے کسی بھی التزام کے بغیر مزید رعایت دینا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ہو گا۔ ان کے مطابق لبنان ایک تاریخی موڑ پر کھڑا ہے جہاں دو ہی راستے ہیں، یا تو واشنگٹن اور تل ابیب کے مطالبات مان کر سرپرستی قبول کی جائے اور ملک کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا آغاز ہو، یا پھر قابض دشمن کو نکال کر لبنان کی خودمختاری بحال کی جائے اور ملک کو بیداری کی راہ پر ڈالا جائے۔
واضح رہے کہ لبنانی کابینہ نے اگست سنہ 2025ء میں اسلحہ ریاست کے ہاتھ میں محدود کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس میں حزب اللہ کا اسلحہ بھی شامل ہے، اور فوج کو اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ایک منصوبہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس کی مدت سال کے اختتام تک رکھی گئی۔
چند روز قبل لبنانی وزیر اعظم نواف سلام نے اعلان کیا تھا کہ دریائے لیطانی کے جنوب میں اسلحہ محدود کرنے کے منصوبے کا پہلا مرحلہ تکمیل کے قریب ہے اور ریاست دوسرے مرحلے کی طرف بڑھنے کے لیے تیار ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لبنان کو قابض اسرائیل کی جانب سے ایک شدید جارحیت کا سامنا رہا جو اکتوبر سنہ 2023ء میں شروع ہو کر ستمبر سنہ 2024ء تک جاری رہی۔ اس دوران چار ہزار سے زائد افراد شہید اور سترہ ہزار زخمی ہوئے جبکہ سیز فائر معاہدے کی چار ہزار پانچ سو سے زیادہ خلاف ورزیاں بھی ریکارڈ کی گئیں۔
