اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی شعبے کے رکن عزت رشق نے فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی مندوب برائے مشرق وسطیٰ جارج میچل کے اسرائیل سے مذاکرات کے فریب میں نہ آئے۔
انہوں نے کہا کہ “فلسطین, اسرائیل امن بات چیت کی بحالی کا فریب صہیونی تجویز ہے جو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھونے امریکی مندوب کو پہلے ہی پیش کی ہے، اس تجویز سے قبل امریکا فلسطین میں غیرقانونی یہودی آباد کاری کے اپنے اصولی موقف سے پسپاہوگیا ہے اور اب اس ضمن میں دونوں ملکوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ہفتے کے روز شام کے دارالحکومت میں قائم حماس کے دفتر سے عزت رشق کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیزمیں کہا گیا ہے کہ”خطے میں قابل ذکر سیاسی گرما گرمی دیکھی جا رہی ہے اور یہ سیاسی گرما گرمی مختلف ممالک کے دارالحکومتوں اور امریکا کے درمیان خاص طور پردیکھی جا رہی ہے، ان تمام سیاسی محافل اور کوششوں میں سب سے زیادہ توجہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کی بحالی کی کوششیں شامل ہیں، امریکی مندوب برائے مشرق وسطیٰ جارج میچل کی فلسطین آمد بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے، میچل فلسطینی اتھارٹی کی قیادت اور صہیونی حکومت کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے لیے اس سے قبل امریکی وزیرخارجہ کے معاون خصوصی برائے مشرق وسطیٰ ڈیوڈ ھبل اور امریکی قومی سلامتی کمیٹی کے رکن ڈینیل چیپر محمود عباس اور اسرائیلی قیادت سے مل کرمذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے کی ابتدائی کوششیں کر چکے ہیں”۔
عزت رشق نے کہا کہ امریکی مندوب کی مذاکرات بحالی کی کوششیں اپنی جگہ لیکن امریکی صدر باراک حسین اوباما کے ایلچی کے پاس اپنا کچھ نہیں وہ صرف صہیونی دشمن کی تجاویز کوعملی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میچل وہی بات کرتے ہیں جو یاھو کی جانب سے انہیں بتائی جاتی ہے، اب امریکا فلسطین میں یہودیت کے غیرقانونی فروغ سے متعلق اپنے موقف سے ہٹ چکا ہے اور اب امریکا اور اسرائیل کے درمیان مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیت میں رنگنے اور مغربی کنارے میں یہودی کالونیوں کی تعمیر میں مکمل طورپر ہم آہنگی موجود ہے۔
حماس کے راہنما نے کہا کہ “امریکا فلسطینی اتھارٹی کومذاکرات کے لیے بلیک میل کرتے ہوئے اسے نام نہاد مذاکرات کی سیاسی رشوت دے رہا ہے۔ صہیونی وزیراعظم نیتن یاھو کی جانب سے فلسطین میں عارضی سرحدوں پر مشتمل فلسطینی ریاست کے قیام کا عندیہ اور اس پر امریکی حمایت “باہمی اعتماد سازی کے تحت” فلسطین کے چند قیدیوں کی رہائی اور مغربی کنارے میں بعض میں چار سو سے زیادہ یہودی فوجیوں کی چیک پوسٹوں کو کم کر کے تین سو تک لانا اسی سیاسی رشوت کے”پیکج” میں شامل ہیں، جس کے ذریعے اوسلو اتھارٹی کوبلیک میل کر کے فلسطینی عوام کے حقوق پرشب خون مارنے کی سازش کی جارہی ہے”۔
انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینی اتھارٹی کا اسرائیل سے مذاکرات پر آمادہ ہونا نہایت خطرناک ہو گا، کیونکہ مذاکرات کی بحالی سے بیت المقدس کو یہودیت کا رنگ دینے کے صہیونی جرائم کی نہ صرف پردہ پوشی ہو گی بلکہ دشمن صہیونی کو اپنی ظالمانہ اور فلسطین دشمن اقدامات کا مزید موقع ملے گا۔
عزت رشق نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے جس فریب کا شکار ہو رہی ہے اس کے بیت المقدس پر براہ راست تین خطرناک نتائج مرتب ہوں گے، جن میں بیت المقدس میں یہودیت کے فروغ میں معاونت، فلسطینی مقدسات پر حملوں میں اضافہ اوریہودیوں کی غیر قانونی تعمیرات کا فروغ جیسے مضر اثرات اور نتائج شامل ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا واضح مقصد یہ ہوگا کہ اسرائیل کوبیت المقدس میں ہر قسم کی دست درازی کا موقع دے کر بیت المقدس اور مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی بے دخلی کا پرمٹ دینا ہے”۔