اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کے راہنما فوزی برھوم نے تنظیم آزادی فلسطین کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کواسرائیل کے ساتھ بالواسطہ طور پرمذاکرات کے لیے مینڈیٹ دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے تنظیم کے اصولی موقف سے پسپائی قراردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے تنہائی کا شکار اسرائیل کو اپنی مشکلات کم کرنے میں مدد ملے گی، جبکہ فلسطینیوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں فوزی برھوم نے کہا کہ اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کی حمایت کے مسئلہ فلسطین پردورس گہری منفی اثرات مرتب ہوں گے، اس سے اسرائیل کو اپنے جرائم پردرپیش تنہائی کو کم کرنے اور سنگین جنگی جرائم کی پردہ پوشی کا موقع ملے گا۔ انہوںنےکہا کہ اسرائیل فلسطین میں بدترین جنگی جرائم میں مبتلا ہے، حال ہی میں دبئی میں حماس کے راہنما محمود المبحوح کو شہید کرنےکے بعداسرائیل کوعالمی سطح پرکڑی تنقید اور تنہائی کا سامنا ہے، ایسے میں فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل سے مذٓکرات سے محمود مبحوح کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق عالمی سطح پر ہونے والی تحقیقات بھی متاثر ہوں گی۔ فوزی برھوم نے کہا کہ انہیں تنظیم آزادی فلسطین کے موجودہ ڈھانچے اوراس کی پالیسی سے شدید اختلافات ہیں۔ حماس نے مصر کے ہاں مفاہمتی مسودے میں جن تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان میں تنظیم آزادی فلسطین کی اس کے اصولی اور دیرینہ موقف کے مطابق تشکیل نوبھی شامل ہے تاہم فتح تنطیم آزادی فلسطین کی تشکیل نو کے خلاف ہے۔ تنظیم کے حالیہ ڈھانچے میں صرف فتح کے ایسے لوگ مسلط ہیں جو اسرائیل کے ساتھ بے سود مذاکرات کے حامی ہیں۔ انہوںنے فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے مذاکرات کو ترجیح دینے کے بجائے فلسطین کی داخلی صورت حال پرتوجہ دیں، اسرائیل سے بات چیت صہیونی جرائم کو تسلسل فراہم کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے، فلسطینی عوام کے حقوق کا واحد راستہ مفاہمت کے ذریعے مزاحمت اختیار کرنا ہے۔