ترکی کے ایک اخبار نے دعوی کیا ہے کہ فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی بربریت کے بعد ترک عوام کے اسرائیل کے خلاف بڑھتے غیظ وغضب کے پیش نظر ترک حکومت عنقریب صہیونی ریاست سے روابط منقطع کر لے گی چنانچہ تل ابیب سے بلائے گئے ترک سفیر کو واپس اسرائیل نہیں بھیجا جائے گا۔ ترکی کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 31 مئی کو فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے، جس میں نو ترک رضاکار شہید ہو گئے تھے، کے بعد ترکی اسرائیل کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کے نئے روڈ میپ پر کام کر رہا ہے۔ ترک اخبار ’’ سٹار‘‘ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ فیصلہ اس ہفتے ہونے والے حکومتی اجلاس میں کیا گیا ہے۔ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کے مشیر سے اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے ایسی کسی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اخبار کے مطابق ترک حکومت نے یہ فیصلہ بھی کر لیا ہے کہ امدادی قافلے پر اسرائیلی ننگی جارحیت کی تحقیق کے لیے اقوام متحدہ کا نمائندہ اسرائیل نہ بھیجا گیا تو ترکی تل ابیب سے واپس بلائے گئے اپنے سفیر کو دوبارہ اسرائیل بھی نہیں بھیجے گا۔ ’’سٹار‘‘ نے ترک ذرائع کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے ’’ ہم نے فوجی، سفارتی اور سیاسی دباؤ سمیت مختلف اقدامات کے فیصلے کر رکھے ہیں‘‘ ذرائع کے مطابق عسکری معاہدات کو منجمد کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے، ان معاہدات میں 7.5 ملین ڈالرز کے تخمینے پر مشتمل اپ گریڈ کردہ ہوائی جہاز، ٹینک اور راکٹس کے منصوبہ جات کے معاہدے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح مشترکہ جنگی مشقوں، پائلٹوں کی تربیت اور خفیہ معلومات کے تبادلے پر مشتمل فوجی تعاون کی تمام معاہدات ختم کر دیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق انسانیت سوز جرائم کی بنا پر اسرائیل کو دی جانے والی سزا بتدریج بڑھائی جائے گی۔