اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے معروف رہنما ایمن طہ نے تحریک کے 23ویں یوم تاسیس کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حماس قبلہ اول مسجد اقصی، مقدس مقامات اور اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے جہاد اور مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتی رہے گی۔
ایمن طہ نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اسرائیلی قتل و غارت گری اور غزہ کی پانچ سالہ ناکہ بندی کے باوجود حماس نے فلسطینی قوم کے سامنے حکومت کا ایک شاندار نمونہ پیش کیا ہے۔ حماس نے فلسطین میں جہاد اور مزاحمت کا جو بیج بویا تھا اس کے ثمرات عوام کو مل رہے ہے حماس بھی فلسطینی معاشرے میں سرگرم کردار ادا کرکے اسی سے مستفید ہو رہی ہے۔
حماس کا 23 سالہ پیغام کیا ہے؟
فلسطینی قوم کے لیے ہمارا پیغام یہ ہی ہے کہ حماس مسجد اقصی، اسلامی مقدس مقامات اور فلسطینی سرزمین کی حفاظت کے لیے جہاد اور مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرتی رہے گی۔ حماس دیگر ممالک میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی، فلسطینی اسیران کی رہائی، القدس کی رہائی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنے موقف پر قائم رہے گی۔
آج 23 سال بعد ہم اس بات پر زور دیں گے کہ حماس صرف 15 دسمبر 1987ء سے وجود میں نہیں آئی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حماس کا اختیار کردہ موقف انبیاء و رسل اور اس امت کے تمام بڑے رہنماؤں کا راستہ بھی ہے۔ اس لیے حماس کا اختیار کردہ راستہ 23 سال نہیں بلکہ اس سے بھی قبل کا راستہ ہے۔
حماس کی جانب شروع کی مزاحمتی اور معاشرتی تحریک کا جائزہ لیں تو اس سے بھی بہت پہلے سنہ 1948ء میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے دن سے فلسطین کی سرزمین میں جہادی، معاشرتی اور خیراتی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ حماس نے نیا کچھ نہیں کیا بلکہ اخوان کے پھیلائی خوشبو کو ہی بکھیرا ہے۔
بہت سے لوگ حماس پر حکومت اور مزاحمت میں بیک وقت شریک ہو کر اپنے منشور سے دستبرداری کا الزام لگاتے ہیں۔ آپ کیا کہیں گے؟
مجموعی طور پر حماس نے اپنے دوٹوک موقف پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا تھا، انتخابات میں شرکت کے وقت اس کے نعرے ’’مزاحمت اور سیاست ساتھ ساتھ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے انتخابات میں شرکت بھی مزاحمت کو مضبوط کرنے کے لیے کی۔ چنانچہ تحریک حماس نے قوم کی جانب سے سپرد کی گئی ایک طویل مزاحمتی تاریخ کی حفاظت کی ہے۔ اسی لیے ہم نے حکومت اور سیاست میں شرکت کی ہے، یہ بات بھی واضح ہے کہ حماس نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا ہے کہ حکومت اور مزاحمت ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
حماس سجھتی ہے کہ اسرائیلی اور امریکی کی قوم کے خلاف ریشہ دوانیوں کو خوب سمجھتی ہے۔ اسی لیے ہم نے کسی بھی دباؤ میں نہ آتے ہوئے اپنی اسلامی اور عرب نسل پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ ہم نے اسی تصور کو عملی شکل دی اور دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا اس میں کئی ممالک نے ہماری مدد کی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر غزہ کا ظالمانہ محاصرہ اور معاشی ناکہ بندی نہ ہوتی تو اسلامی اور قومی منصوبے عمل درآمد کے حوالے سے حماس کی کارکردگی مزید بہتر ہوتی ہے۔ حماس نے اسرائیل کی قتل و غارت گری اور معاشی ناکہ بندی کے باوجود قوم کے سامنے حکومت کا ایک شاندار ماڈل پیش کیا ہے۔
حماس کے قومی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اس پر ہر طرف سے گھیرا تنگ کیا گیا یہ ہی وجہ ہے کہ حماس کا شروع کیا گیا یہ ماڈل غزہ کے آگے نہ بڑھ سکا، اس کو ناکام بنانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں لیکن حماس نے چار سال تک بڑی موثر انداز میں اپنے قومی اور جہادی پروگرام کو ساتھ ساتھ چلایا ہے۔ اس سارے عرصے میں حماس اپنے واضح اور دو ٹوک مزاحمتی موقف پر ڈٹی رہی۔ ہم نے فلسطین میں مزاحمت اور جہاد کی کاشت کر دی ہے جس کے ثمرات قوم حاصل کر رہی ہے۔ حماس کے لیے ضروری ہے کہ فلسطینی معاشرے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرکے وہ بھی اس کے ثمرات سے مستفید ہو۔
آپ کی رائے میں حماس نے اب تک کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں؟
حماس نے کامیابیوں کے کئی منازل طے کی ہیں، اس نے مختلف تنظیمیں، ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ جہادی کارروائیوں میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔ قوم کے مسلمہ اصولوں پر ثابت قدم رہنے میں کامیابی ہوئی۔ اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس مسلمہ اصولوں پر کامیابی سے ثابت قدم رہی۔ تنظیم فلسطینیوں کو جبری طور پر اپنے علاقوں سے بیدخل کرنے کے اس منصوبے کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی جس کا خالق اسرائیل کا مقتول سابق وزیر اعظم اضحاک رابین تھا۔ اسی طرح اردن کے جنوبی ضلع مرج الزھور کی طرف بے دخل کیے گئے 412 فلسطینیوں کے خلاف مزاحمت کر کے ان کو واپس لانا بھی حماس کی بڑی کامیابی ہے۔ حماس نے کرپشن کا خاتمہ کر کے شفاف اور مربوط نظام متعارف کرایا جو اس کی بڑی کامیابی ہے۔
بعض لوگ حماس پر یہ تنقید بھی کرتے ہیں کہ اسے 23 سالوں کے دوران مغربی کنارے میں مزاحمت کے تصور کو اجاگر کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ آپ کیا کہیں گے؟
اس کے برعکس حماس کا خیال ہے کہ حماس فلسطین کے ہر علاقے میں مزاحمتی پروگرام کو چلا سکتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں پر تحریک فتح اور اس کی سکیورٹی فورسز ہماری کوششوں کو ناکام بنانے کو کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ حماس کی خطرناک کارروائیوں میں سے اکثر مغربی کنارے میں ہوئیں مگر ہم ان کو گننا نہیں چاہتے۔ ان کو شمار کرنا بڑا مشکل ہے۔
یحیی عیاش، ابو الھنود جیسے حماس کے بڑے انجینئرز کا تعلق مغربی کنارے سے تھا۔ ان مجاہدین نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔ اس کے بعد کوئی کیسے تنقید کر سکتا ہے، حماس نے مغربی کنارے میں شاندار کارروائیاں کی ہیں۔ جیسے ہی حماس کو اس علاقے میں بھرپور رسائی ملے گی وہاں پر اسرائیلیوں کے خلاف دلیرانہ کارروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا جائے گا، جس کی ایک مثال چند ماہ قبل الخلیل کی شاندار کارروائی ہے۔
خارجہ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ حماس کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا گیا۔ کیا وہ اس تنہائی کو توڑنے میں کامیاب ہو جائے گی؟
حماس سیاسی طور پر تنہا نہیں، جو لوگ ایسا سوچ رہے ہیں وہ سخت غلطی میں ہیں۔ حماس کے عرب اور دیگر ممالک سے مضبوط تعلقات قائم ہیں۔ بہت سے یورپی ممالک حماس کے ساتھ تعلق استوار کر رہے ہیں، ہمارے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں۔ ہماری اسرائیل کے علاوہ کوئی دشمنی نہیں۔ بہت سے ممالک نے حماس کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ بعض نے ایسا نہیں کیا مگر ہم سب کا احترام کرتے ہیں، تاہم یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ساری دنیا کو حماس کی اہمیت کو سمجھ چکی ہے۔
اس خصوصی موقع پر ہم اسرائیلی عقوبت خانوں میں فلسطینی اسیران اور ان کی مشکلات کو بھول نہیں سکتے، آپ انہیں کیا پیغام دیں گے؟
حماس اسیران کی رہائی کو ایسا مسلمہ اصول گردانتی ہے جس سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوا سکتا۔ حماس نے وطن کی آزادی کی خاطر زندگی کے بیش قیمت سال اسرائیلی عقوبت خانوں میں گزارنے والے اسیران کو کبھی نہیں بھلایا ہے اور ہمیشہ ان کی رہائی کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہے۔ حماس عنقریب اپنے اسیروں کی رہائی کے لیے ایسی تحریک شروع کرے گی۔ اسیران کی رہائی اللہ کے فضل اور پھر مزاحمت کے ذریعے ہی ہو گی۔