اسرائیلی بلدیہ نے مقبوضہ بیت المقدس کی اولڈ میونسپلٹی کی متعدد گلیوں اور شاہراہوں کے قدیم عرب ناموں کو عبرانی زبان کے نئے ناموں سے بدل دیا ہے۔ خاموشی سے ناموں کی اس تبدیلی کا مقصد اہالیان القدس کو ہجرت پر مجبور کرنا ہے۔ القدس سنٹر برائے معاشی و معاشرتی حقوق کے تحقیقی یونٹ کی جانب کی ایک حالیہ رپورٹ میں القدس کی گلیوں، شاہراہوں اور علاقوں کے ناموں کو تبدیل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ سنٹر کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اسرائیلی بلدیہ کے اہلکاروں نے ان کے گھر کی دیوار پر نئی نیم پلیٹ لگا دی ہے جس میں اس گلی کا نام عبرانی میں درج کیا گیا ہے حالانکہ اس گلی کا قدیم یونانی نام ’’دیر باسیلوس‘‘ ہے۔ فلسطینی تنظیم نے کہا ہے کہ بلدیہ کا یہ عمل نہ صرف کسی دوسرے کی ملکیت پر قبضہ کرنے کے مترادف بلکہ مالک مکان کی اجازت یا اس کو اطلاع دیے بغیر نئی پلیٹوں لگانے کے اس عمل کا مقصد القدس کی اولڈ میونسپلٹی کی تاریخ کو مسخ کی ایک کوشش ہے۔ القدس سنٹر کے ڈائریکٹر زیاد الحموری کا کہنا ہے کہ القدس اولڈ میونسپلٹی کی گلیوں اور گذرگاہوں کے ناموں کی تبدیلی بھی اسی ناپاک 20/20 ھیکلی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت اسرائیلی بلدیہ القدس کے اصل باسیوں کو زبردستی اولڈ میونسپلٹی کی حدود سے باہر رہائش اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت یہاں کے رہائشیوں کو اپنے شناختی کارڈوں پر ان گلیوں کے نئے نام درج کرانا لازم ہونگے اور پھر اگلے مردم شماری کے وقت ان سب نئے سرے سے القدس کی اولڈ میونسپلٹی کا رہائشی ثابت کرنا ہوگا، اس عمل میں صہیونی وزارت داخلہ کی جانب سے مختلف قسم کی دستاویز پر کرنا ہونگی جو انتہائی تکلیف دہ عمل ہوگا۔