دو سال قبل غزہ پر کی گئی صہیونی غارت گری پر انسانیت آج بھی شرمسار ہے۔ جنگ کے دوران تمام عالمی برادری نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال بھی اس سے قبل سامنے نہیں آئی تھی۔ اسرائیل کو داد دینی چائیے کہ اس نے غذائی اور طبی ناکہ بندی کے شکار غزہ کے فلسطینیوں پر چند ہی منٹ میں ایک سو ٹن سے زائد بارود برسانے کےلئے ایسا وقت چنا جب عالمی ردعمل نہ ہونے کے برابر ہو۔ سب سے بڑھ کر بے حسی امریکا کی جانب سے دیکھنے میں آئی، ستائیس دسمبر کے دن ریاستی دہشت گردی میں تین سو بیس فلسطینیوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ آج بھی پوری جنگ میں صرف 13 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے بدلے 1417 فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود عالمی برادری اسرائیل کو غزہ پر حملوں سے باز رکھنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کو تیار نہیں۔ ایک اسرائیلی کے بدلے 109 فلسطینیوں کی جان لینے والی اس جنگ کے خلاف عالمی ضمیر اب تک سویا ہوا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کو بہت عرصے پہلے انسان کے منصب سے اتار کر نیم انسان کے خانے میں رکھ چکی ہے تو کیا اب یہ نیم انسان اس قابل بھی نہیں رہے کہ ان کا تحفظ انسداد بے رحمی حیوانات کے قانون کے تحت ہی ہو سکے آخر وہ دن کب آئے گا کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ایک یہودی جج کی تیار کردہ گولڈ اسٹون رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر اس کے خلاف کارروائی کر سکے گی۔