مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
قابض اسرائیلی فوج نے گذشتہ ماہ اکتوبر کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں فلسطینی عوام کے خلاف گرفتاریوں کی مہم تیز تر کر دی۔ مرکز برائے مطالعۂ اسیرانِ فلسطین کی رپورٹ کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینے میں 540 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔
ادارے کے مطابق سات اکتوبر سنہ2023ء سے اکتوبر کے اختتام تک قابض اسرائیل مغربی کنارے اور بیت المقدس سے مجموعی طور پر 19 ہزار 300 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کر چکا ہے۔
ان گرفتار شدگان میں 600 خواتین اور بچیاں، 1540 کم سن بچے، ہزاروں سابق اسیران اور متعدد فلسطینی قانون ساز کونسل کے اراکین شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر میں ہونے والی 540 گرفتاریوں میں 8 خواتین، 39 بچے شامل ہیں، جبکہ اسی دوران قابض اسرائیلی جیلوں میں 3 فلسطینی اسیران جامِ شہادت نوش کر گئے۔
اسی ماہ قابض فوج نے رام اللہ کی البیرہ شہر میں مجاہد رہنما جمال الطویل کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا، حالانکہ چند ماہ قبل ہی ان کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ وہ مجموعی طور پر 18 سال سے زائد کا عرصہ صہیونی زندانوں میں گزار چکے ہیں۔
خواتین اور بچوں کی گرفتاری
قابض اسرائیل نے اکتوبر کے دوران فلسطینی خواتین اور بچوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا۔ اس دوران 39 کم سن بچے گرفتار کیے گئے جن میں سب سے کم عمر تیرہ سالہ محمد احمد خروب ( الجلزون کیمپ، شمالی رام اللہ) اور تیرہ سالہ محمود شادی ملیطات (بلدہ بیت فریک، نابلس) شامل ہیں۔
قابض فورسز نے 8 فلسطینی خواتین کو بھی گرفتار کیا جن میں شہداء کی مائیں شامل ہیں تاکہ ان پر دباؤ ڈال کر ان کے بیٹوں کو قابض فوج کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ ان میں رام اللہ سے شہید محمد اشتیہ کی والدہ، جنین سے شہید عید مرعی کی والدہ، اور قلقیلیہ سے “قدومیم” کارروائی کے شہید مجاہد کی والدہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ جنین کے قصبے قباطیہ سے نوجوان فرح حنایشہ، الخلیل سے آلاء غریب اور فلسطینی فوٹو جرنلسٹ اسراء خمیسہ کو بھی گرفتار کیا گیا۔
تین اسیران کی شہادت
اکتوبر میں قابض اسرائیلی جیلوں میں شہید ہونے والے فلسطینی اسیران کی مجموعی تعداد بڑھ کر 317 ہو گئی۔ ان میں سے 80 اسیران سنہ2023ء کی 7 اکتوبر کو غزہ کے خلاف جاری جنگِ نسل کشی کے بعد شہید ہوئے۔ اکتوبر میں 3 مزید اسیران قابض جیلوں میں شہید ہوئے جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
69 سالہ اسیر کامل محمد العجرمی (غزہ سے) اکتوبر سنہ2024ء میں گرفتار کیے گئے تھے۔ عمر رسیدگی کے باوجود صہیونی درندوں نے ان پر شدید تشدد کیا جس سے ان کی حالت بگڑتی چلی گئی اور بالآخر “سوروکا ہسپتال” میں وہ جامِ شہادت نوش کر گئے۔
49 سالہ اسیر محمود طلال عبداللہ (جنین سے) کو رواں سال فروری میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا ہیں، مگر قابض اسرائیل نے نہ انہیں رہا کیا نہ ہی مناسب علاج فراہم کیا۔ ان کی حالت بگڑنے پر انہیں “اساف ہاروویہ ہسپتال” منتقل کیا گیا جہاں وہ شہید ہو گئے۔
22 سالہ احمد حاتم خضیرات (الخلیل سے) کو مئی میں گرفتار کیا گیا حالانکہ وہ ذیابیطس کے مریض تھے۔ انہیں بغیر مقدمے کے انتظامی قید میں ڈال دیا گیا۔ صہیونی جیل النقب میں ان کی حالت بگڑتی گئی، وہ تشنج، جلدی بیماری اور فالج جیسے امراض میں مبتلا ہو گئے۔ بعد ازاں انہیں سوروکا ہسپتال لے جایا گیا مگر بہت دیر ہو چکی تھی، وہ جامِ شہادت نوش کر گئے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نومبر کے آغاز میں جنین کے رہائشی محمد حسین غوادرہ بھی صہیونی جیل میں طبی غفلت کے باعث شہید ہو گئے جس سے شہداء اسیران کی تعداد 318 ہو گئی۔
انتظامی حراست کے احکامات میں اضافہ
اکتوبر کے دوران قابض اسرائیل نے فلسطینی اسیران کے خلاف انتظامی حراست (بغیر فرد جرم) کے احکامات میں خطرناک حد تک اضافہ کیا۔ صرف ایک ماہ میں 809 احکامات جاری کیے گئے جن میں 4 خواتین بھی شامل ہیں۔
حربِ نسل کشی کے آغاز سے اب تک قابض اسرائیل 3500 سے زائد فلسطینیوں کو انتظامی حراست میں ڈال چکا ہے جو کل اسیران (9500) کا ایک تہائی سے زیادہ بنتا ہے۔
تبادلے کی کامیاب ڈیل
اکتوبر میں فلسطینی مزاحمت نے قابض اسرائیل کے ساتھ ایک اہم قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کامیابی سے انجام دی جس کے نتیجے میں غزہ پر جارحیت کے عارضی توقف کے بدلے 1968 فلسطینی اسیران رہا ہوئے۔ ان میں 250 وہ مجاہدین شامل تھے جنہیں عمر قید یا طویل سزائیں سنائی گئی تھیں، جب کہ 154 کو جلاوطن کیا گیا۔ رہا شدگان میں 1718 وہ فلسطینی شامل ہیں جنہیں غزہ پر مسلط کردہ نسل کشی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
ان میں 137 وہ اسیران تھے جنہوں نے بیس سال سے زیادہ عرصہ قابض جیلوں میں گذارا۔ مجموعی طور پر تینوں تبادلوں میں 80 فیصد فلسطینی اسیرانِ عمدا (طویل المدتی اسیران) کو رہائی ملی، جب کہ عمر قید یافتہ اسیران میں یہ شرح 87 فیصد رہی جو فلسطینی مزاحمت کی ایک عظیم کامیابی ہے۔
غزہ کے اسیران کی حالت
مرکز برائے مطالعۂ اسیرانِ فلسطین کے مطابق قابض اسرائیل نے اکتوبر میں بھی غزہ کے اندر سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ قابض فورسز نے 5 ماہی گیروں کو سمندر میں کام کے دوران حراست میں لیا، 9 شہریوں کو رفح کے مشرقی علاقے النصر سے گرفتار کیا اور 15 شہریوں کو خان یونس کے مشرقی علاقے الفخاری سے اس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنے گھروں کا حال دیکھنے واپس آئے تھے۔
اگرچہ تبادلے کی تیسری صفقة کے دوران 1718 غزہ کے اسیران رہا ہوئے، مگر قابض اسرائیل اب بھی تقریباً 1800 غزہ کے شہریوں کو زیر حراست رکھے ہوئے ہے۔ ان پر ہر قسم کے ظلم، اذیت اور منظم تشدد کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ انہیں خوراک، علاج اور انسانی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ بالخصوص نئے قائم کردہ زیر زمین “رکیفت جیل” میں رکھے گئے اسیران کو “انتہائی خطرناک” قرار دے کر غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
قیدیوں کے تبادلے کے دوران شہداء اسیران کی میتوں کی حوالگی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ قابض اسرائیل فلسطینی قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتا ہے۔ شہداء کی لاشیں ہاتھ پاؤں سے جکڑی ہوئی، آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ملی ہیں۔ بعض کو پھانسی دی گئی، بعض کو قریب سے گولیاں مار کر شہید کیا گیا، اور بعض کو بدترین تشدد سے قتل کیا گیا۔ یہاں تک کہ متعدد شہداء کے جسموں سے اعضا نکالنے کے شواہد بھی ملے ہیں جن کے جسم اندر سے خالی اور روئی سے بھرے ہوئے پائے گئے۔