مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
انسانی حقوق کا عالمی دن سنہ 10 دسمبر 2025ء کو ایسے وقت منایا جا رہا ہے جب پوری دنیا انسانی وقار کے عالمی اعلامیے کی یاد مناتی ہے اور اس برس کا عنوان “انسانی حقوق ہماری روزمرہ زندگی میں وقار کی بنیاد”رکھا گیا ہے۔ مگر اس دن کی بازگشت مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر قابض اسرائیل کی سفاکیت تلے دب رہی ہے جہاں انسانی بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اس وقت انتہائی سنگین انسانی صورتحال درپیش ہے اور قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں عام شہریوں پر ہونے والی مسلسل اور وسیع پیمانے کی پامالیوں نے زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے واضح کیا کہ فلسطینیوں کو اعلانِ عالمی حقوقِ انسان میں درج بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے جن میں زندگی کا حق، حقِ خود ارادیت، مناسب معیارِ زندگی، صحت کی نگہداشت اور تعلیم شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قابض اسرائیلی جیلوں میں زیرِ حراست اسیران شدید اذیت رسانی اور ناروا سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
سیز فائر کے باوجود حملے جاری
قابض اسرائیلی فوج زمینی، فضائی اور بحری حملے نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ بڑے پیمانے پر شہری آبادی اور ان کے گھروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ قابض اسرائیلی فوج غزہ کی پچپن فیصد سے زائد زمین پر عسکری قبضہ جما چکی ہے جبکہ رہائشی علاقوں، بے گھر فلسطینیوں کے کیمپوں اور محلہ جات میں دراندازی اور فائرنگ مسلسل جاری ہے۔
انسانی حقوق کے ذرائع کے مطابق سیز فائر کے فیصلے کے نفاذ کے بعد سے قابض اسرائیل کے حملوں میں تین سو چھیاسی فلسطینی شہید اور نو سو اسی زخمی ہو چکے ہیں۔ قابض اسرائیل کی طرف سے نقل و حرکت پر پابندی بدستور برقرار ہے خصوصاً مریضوں اور زخمیوں کے لیے، جن میں پندرہ ہزار سے زائد ایسے افراد ہیں جنہیں علاج مکمل کرنے کے لیے سفر کی فوری ضرورت ہے۔ صحت کا شعبہ تباہی کے دہانے پر ہے، ادویات کی قلت پچپن فیصد جبکہ طبی سامان کی کمی اکہتر فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
غزہ میں بدترین انسانی بحران
غزہ کے محاصرے نے زندگی کو ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے۔ سامانِ خورد و نوش، ادویات، ایندھن اور رہائشی مواد کی روک تھام نے معاملات مزید بگاڑ دیے ہیں۔ سنہ 600 ٹرکوں کے مقابلے میں اب روزانہ بمشکل 171 ٹرک غزہ داخل ہو پاتے ہیں۔
بے گھر فلسطینیوں کی حالت نہایت تشویشناک ہے۔ لاکھوں خاندان بغیر سرچھپانے کی مناسب جگہ کے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور سخت موسم کے دوران دو لاکھ اٹھاسی ہزار سے زائد خاندان حقیقی خطرات سے دوچار ہیں، جبکہ ہزاروں خیمے بارشوں اور سیلابی پانی میں ڈوب رہے ہیں۔
تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی
غزہ میں سماجی اور معاشی حالات کے بگاڑ کے ساتھ ساتھ صنعتی، زرعی، تاریخی اور سیاحتی مقامات کی وسیع پیمانے پر تباہی نے بحران میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ قابض اسرائیل کی بھوک کی پالیسی نے معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں میں ہلاکتوں کی تعداد چار سو ستاون تک پہنچا دی ہے۔
تعلیم کا شعبہ مسلسل تیسرے سال مفلوج ہے۔ سکول، یونیورسٹیاں اور نرسریاں تباہ ہو چکی ہیں۔ اس تعلیمی خلاء نے طلبہ اور محققین کے علمی سفر کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
عالمی مداخلت کا بڑھتا مطالبہ
میزان سینٹر برائے انسانی حقوق نے واضح کیا کہ غزہ میں جاری حملے مکمل نسل کشی اور بین الاقوامی انسانی قانون و انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ مرکز نے باور کرایا کہ قابض اسرائیل نہ سیز فائر کی مفاہمت کا احترام کر رہا ہے نہ ہی عالمی عدالتِ انصاف، عالمی فوجداری عدالت، سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلوں کا۔
مرکز نے عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا تاکہ نسل کشی روکی جائے، قابض اسرائیلی افواج کو غزہ سے نکلنے پر مجبور کیا جائے، مریضوں اور زخمیوں کی آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنائی جائے، غذائی اور طبی امداد وافر مقدار میں داخل ہونے دی جائے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر سزا کو یقینی بنایا جائے تاکہ قابض اسرائیل کی سزا سے بچ نکلنے کی پالیسی ختم ہو۔
مرکز نے دنیا کی اقوام سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کی مہمات بڑھائیں اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی اخلاقی و قانونی ذمہ داریاں پوری کریں تاکہ نسل کشی رکے اور قبضہ ختم ہو۔