Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

امریکی یہودی عزائم،جوبائیڈن کے بیان کی روشنی میں!

palestine_foundation_pakistan_israel-us-flag امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن نے اپنے حالیہ دورہ اسرائیل کے موقع پر ایک اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیل کی مالی اور عسکری امداد اور تعاون کا اعادہ کیا ہے،بائیڈن نے کہا ہے کہ ”امریکا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو سب سے بڑی فوجی طاقت دیکھنا چاہتا ہے اور اسرائیل کو دی جانے والی تین ارب ڈالر کی سالانہ امداد میں اضافے اور دفاعی میزائل نظام کی فراہمی پر غور کیا جا رہا ہے۔“ یہ بیان بظاہر تو امریکی نائب صدر ہی کا ہے اور یہ امریکا کا پالیسی بیان ہے لیکن وہ اہل سیاست و سفارت جن کی نظریں امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ کی تاریخ پر ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مذکورہ بیان و عزائم فی الحقیقت ان امریکی یہودیوں کے ہیں جو امریکا کی سیاست و سفارت،تجارت و معیشت، میڈیا اور وزارت خارجہ پر قابض ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امریکا کے تمام اہم ریاستی اداروں پر قابض یہودی نہ صرف امریکی سیاست کو کنٹرول کر رہے ہیں بلکہ امریکا کے مذہب (عیسائیت)اور تہذیب و تمدن کو بھی یہودیت کے رنگ میں رنگنے میں مصروف ہیں۔ پروفیسر سید حبیب الحق ندوی صاحب نے فلسطین کی تاریخ پر اپنی معروف علمی و تحقیقی تصنیف ”فلسطین اور بین الاقوامی سیاست“ میں امریکا اور اسرائیل کی تاریخی وابستگیاں ماضی حال اور مستقبل“ کے عنوان سے ایک ضمیمہ شائع کیا ہے جس میں ایک امریکی صنعت کار ہنری فوڈ کی 1919-20 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا ترجمہ پیش کیا ہے رپورٹ کے مطابق ”یہودی امریکا میں جو کچھ کر رہے تھے وہ محض ”پروٹوکول“ کی عملی تعبیر تھی۔یہودی امریکا میں پروٹوکول کو عملی جامہ پہنا رہے تھے،رپورٹ میں یہ تفصیلات بھی مذکور ہیں کہ امریکا میں یہودی تاریخ کا آغاز کس طرح ہوا اور معیشت و تجارت پر انہوں نے کس طرح قبضہ کیا؟امریکا میں تحریک تہویر پروٹوکول نمبر6 کی تعبیر تھی جس سے عیسائی چرچ تک خائف ہوئے۔فورڈ نے ثابت کر دیا ہے کہ پروٹوکول نمبر 4 کی رو سے یہودی مظلوم نہیں بلکہ ظالم ہیں وہ تو امریکیت کے ہی دشمن ہیں،پروٹوکول نمبر 5 کے تحت یہودی امریکی سیاست پر اس طرح چھائے کہ امریکی سیاست ان کے ہاتھ میں آگئی اور اس سے برے اثرات مرتب ہوئے،یہودیوں نے امریکی مذہب اور پریس تک پر قبضہ کر لیا ہے“۔ مولانا حبیب الحق ندوی نے ہنری فورڈ کی رپورٹ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”عیسائیت کے خلاف یہودیوں کی وارداتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کے مطابق یہودیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسکولوں کالجوں سے عیسائی تہوار کرسمس وغیر کو ختم کر کے یہودی تہوار اور رسوم نافذ کی جائیں،تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی جائے،یہودی امریکی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے بلکہ اس پر قابض ہونے کی سعی کر رہے ہیں،تحقیقات میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ پروٹوکول نمبر 13 کی ہدایت کے مطابق یہودی امریکا میں شراب خوری،بدکاری اور جوا کو عام کر رہے ہیں تاکہ یہاں کے عوام بے کار ہو جائیں۔پریس پر قبضہ کی مہم ہنوز جاری ہے۔سرمایہ کاری اور دولت پر یہودی قبضہ تقریباً مکمل ہے۔ مولانا ندوی رقمطراز ہیں کہ ”فورڈ کی ان تحقیقات نے ملک میں کہرام مچا دیا۔1920سے 1924 تک عوامی نفرت بھڑک اٹھی،یہودیوں نے نفرت کی اس تحریک کو دبانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں یورپ کی طرح یہودکش پالیسی کا آغاز یہاں بھی نہ ہو،امریکی حکومت بھی اس تحقیقاتی رپورٹ سے متاثر ہوئی۔ 1924ء میں جان سن لاج بل منظور ہوا جس کے مطابق یہودیوں کی آمد کو قطعی ممنوع قرار دے دیا گیا لیکن بل کی منظوری تک 25 لاکھ یہودی امریکا میں آباد ہو چکے تھے۔مولانا ندوی نے امریکا اسرائیل کی تاریخی وابستگیوں کا جائزہ لیتے ہوئے امریکی سینیٹر ڈبلیو فل برائٹ جو تعلقات خارجہ کے صدر بھی تھے،عرب اسرائیل تصادم کے واقعہ کے بارے میں ان کے خیالات پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ آج امریکی خارجہ پالیسی ایک بیرونی ریاست کی خواہشات کی تکمیل کے لیے مرتب کی جاتی ہے،بلکہ زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہنا مناسب ہو گا امریکی پالیسی پر اسرائیلی قبضہ ہے تمام پالیسیاں اسی کے مفاد میں بنائی جاتی ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں امریکا کی نوعیت عجیب ہو گئی یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ 18 کروڑ امریکی آبادی کی خارجہ پالیسی یہودی اقلیت کے ہاتھ میں ہے۔ مولانا ندوی نے امریکا اسرائیل تعلقات کے نشیب و فراز کا جائزہ لیتے ہوئے نہایت بصیرت افروز اور دورس تبصرہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ”امریکا کی یہودی پالیسی میں تغیر آئے گا۔ایسا تغیر آئے گا کہ دنیا دیکھ کر حیران رہ جائے گی اس تغیر میں دیر ہو سکتی ہے لیکن یہ نوشتہ دیوار ہے یہ پیش گوئی نہیں تاریخی تنبیہ ہے…. یہ تبدیلی بڑی عبرتناک ہو گی۔کیا عجب کہ امریکا میں بھی مسیحی یورپ کی یہودکش پالیسی کا آغاز ہو جائے اور وہاں بھی اہل یہود بے امان ہو جائیں۔ آخر اہل امریکا بھی تو مسیحی یورپ کی برادری سے تعلق رکھتے ہیں،اسی خوانوادہ کے اجزاء ہیں۔اس کا فیصلہ صرف مستقبل کی تاریخ کرے گی،تاریخ کی زبان خاموش سہی لیکن تاریخ خود فعال ہے۔ مولانا ندوی نے جس ”نوشتہ دیوار اور تاریخی تنبیہ“ کا ذکر آج سے تقریباً 34 برس قبل کیا تھا اسے اس واقعہ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ ”گزشتہ روز 10 مارچ کو نیویارک میں ہزاروں افراد نے فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا یہ مظاہرہ نیویارک میں اسرائیلی ڈیفنس فورس کے لیے فنڈ جمع کرنے کی تقریب کے موقع پر کیا گیا اس مظاہرے میں ہزاروں مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں،امریکیوں اور فلسطینیوں نے بھی شرکت کی،یہ مظاہرہ اس تغیر کی طرف ایک پیش قدمی ہے جس کی نشاندہی مولانا ندوی نے کی تھی یہ پیش رفت یا پیش قدمی معمولی ہی سہی لیکن بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ضرور ہے۔تاہم مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ بات ضرور باعث شرم ہے کہ امریکہ حماس اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی یہودیوں کو مضبوط کر رہا ہے۔انہیں ہتھیار اور دولت سے نواز رہا ہے لیکن مسلم حکمران محض تماشائی بنے ہوئے ہیں ان تماش بینوں کے خلاف بھی سنت وہی موجود ہے اس وقت سے ڈرنا چاہیے کہ جب اللہ کی سنت حرکت میں آئے اور تاج و تخت ہی نہیں ان کا وجود تک اس طرح مٹ جائے کہ نشان تک نہ ملے،مسلم امہ امریکا اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہے اسے پہلے سے زیادہ شدت کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا چاہئیے اور حماس و مظلوم فلسطینیوں کی سیاسی و اخلاقی حمایت کو مزید آگے بڑھانا چاہیے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan