Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

عالمی خبریں

امریکی یونیورسٹی میں ترک طالبہ کی واپسی

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

امریکہ کی ریاست بوسٹن میں ایک وفاقی جج نے ترکیہ سے تعلق رکھنے والی پی ایچ ڈی کی طالبہ رمیساء اوزترک کی حق تلفی ختم کرتے ہوئے اسے یونیورسٹی کیمپس میں دوبارہ تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔

اس فیصلے کے تحت جج نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو حکم دیا کہ اوزترک کا نام دوبارہ اُس سرکاری ڈیٹا بیس میں شامل کیا جائے جس میں غیر ملکی طلبہ کے اندراج اور اُن کی نگرانی کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔

یہ فیصلہ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد سنایا گیا کہ امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ نے اوزترک کا ریکارڈ طلبہ و زائرین کی معلومات کے نظام سے غیرقانونی طور پر حذف کر دیا تھا اور وہ بھی اسی دن جب مارچ میں سادہ لباس اور نقاب پوش حکومتی ایجنٹس نے اسے گرفتار کیا۔

اس ریکارڈ کے حذف ہونے کا مطلب یہ تھا کہ کوئی بھی غیر ملکی طالب علم دورانِ تعلیم یونیورسٹی میں کام نہیں کر سکتا۔

اوزترک نے اپنے ایک بیان میں عدالتی فیصلے پر تشکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے امید ہے کہ آئندہ کوئی اور طالب علم اُس “ظلم” کا نشانہ نہیں بنے گا جسے وہ خود بھگت چکی ہے۔

امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی جس کے تحت امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کام کرتی ہے،نے تاحال فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

اوزترک کی گرفتاری کی ویڈیو بوسٹن کے نواحی علاقے سومرفیل کی ایک سڑک پر ریکارڈ کی گئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی اور شہری حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل اور مذمت کا باعث بنی۔

اُس کی گرفتاری امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے اس کی اسٹوڈنٹ ویزا منسوخی کے بعد ہوئی۔ یہ اقدام اُن غیر ملکی طلبہ کے خلاف چلائی گئی مہم کا حصہ تھا جو امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت میں سرگرم تھے۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق اوزتورک کا ویزا منسوخ کرنے کی واحد وجہ وہ اداریہ تھا جو اس نے ایک سال قبل شریک تحریر کیا تھا۔ اس اداریے میں اس نے قابض اسرائیل کی غزہ پر مسلط جنگ کے دوران یونیورسٹی کی جانب سے اختیار کیے گئے موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اوزترک کو 45 روز تک ریاست لوزیانا کے ایک حراستی مرکز میں قید رکھا گیا، یہاں تک کہ ورمونٹ کے ایک وفاقی جج نے اس کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ اس کی گرفتاری انتقامی کارروائی تھی اور اظہارِ رائے کے دستور میں دیے گئے بنیادی حق کی صریح خلاف ورزی تھی۔

رہائی کے بعد اوزترک جو بچوں کی نشوونما کے شعبے میں تحقیق کر رہی ہے اپنی تعلیم کے لیے دوبارہ تافتس یونیورسٹی لوٹ آئی۔ تاہم حکام کی جانب سے اس کا نام دوبارہ غیر ملکی طلبہ کے اندراجی نظام میں شامل نہ کیے جانے کے باعث وہ تدریس اور ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے سے محروم رہی۔ اس صورتحال نے اس کے قانونی مشیروں کو مجبور کیا کہ وہ اس کے تعلیمی مستقبل کے تحفظ کے لیے فوری عدالتی مداخلت کی درخواست کریں، خصوصاً گریجویشن سے پہلے کے فیصلہ کن مہینوں میں۔

اپنے فیصلے میں جج ڈینیس کیسپر نے ٹرمپ انتظامیہ کے اُن “بے بنیاد اور بدلتے رہنے والے جواز” کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جنہیں بنیاد بنا کر اوزترک کا ریکارڈ حذف کیا گیا تھا۔ جج کے مطابق حکام کبھی یہ دعویٰ کرتے کہ اوزتورک نے غیر ملکی طالب علم کے طور پر اپنا قانونی درجہ کھو دیا ہے، حالانکہ وہ خود تسلیم کر چکے تھے کہ اوزتورک نے اپنے قیام سے متعلق تمام قوانین پر پوری طرح عمل کیا ہے۔

جج کیسپر نے اپنے فیصلے کے آخر میں واضح کیا کہ “جب تک اوزترک قانونی تقاضوں کی پابندی کرتی رہی ہے حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس کے خلاف ایسے اقدامات کرے جو اس کی قانونی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔”

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan