نیویارک ٹائمز نے اپنی حالیہ اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں ٹیکس سے مستثنی متعدد تنظیمیں فلسطین میں خیراتی تنظیموں کے ساتھ ملکر مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے لیے فنڈنگ کر رہی ہیں۔ اخبار نے اپنی حالیہ اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں کم از کم 40 امریکی تنظیموں نے ٹیکسوں سے مستثنی 200 ملین ڈالر مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے فلسطین بھیجے ہیں۔ اخبار کے مطابق اس رقم کو سکولوں، یہودی مذہبی عبادت گاہوں، تفریحی مراکز وغیرہ کی تعمیر پر خرچ کیا گیا، یہ سب اخراجات قانونی طور پر ٹیکس سے مستثنی ہیں۔ تاہم یہ سب خیراتی فنڈز صرف انہی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوئے بلکہ انہیں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں بعض ایسی مدات میں بھی خرچ کیا گیا جن کا قانونی جواز مشکوک ہے۔ گھروں کی تعمیر، جاسوسی کتوں، بلٹ پروف جیکٹوں، رائفلز کا نشانہ درست کرنے کے آلات اور جاسوسی گاڑیاں خریدنے کے لیے انہی فنڈز کو استعمال کیا گیا۔ اخبار کے مطابق اسرائیل کا ٹیکس قانون ان اشیاء کی خرید وفروخت کرنے والی تنظیموں کی ٹیکس معافی کی دراخواست قبول نہیں کرتا۔ اخبار نے امریکی وزارت خارجہ کے ذمہ دار کے حوالے سے نقل کیا ہےکہ امریکا میں ٹیکس سے بچنے کی یہ کارروائیاں بڑی پریشان کن ہیں۔ دوسری جانب یہ امریکی اتنظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اپنی ملاقات کے دوران یہودی آباد کاری کا معاملہ بھی اٹھائیں گے۔