امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین میں یہودی آباد کاری کے اسرائیلی منصوبوں کے خلاف پیش کی گئی قرارداد ویٹو کر دی ہے جس کی شدید مذمت کرتے ہوئے حماس ترجمان فوزی برہوم نے اسے اسرائیلی جرائم کی امریکی تائید جبکہ رضوان نے اسے فلسطینی اتھارٹی کے منہ پر طمانچہ قرار دیا ہے۔ ہفتہ کے روز اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے اپنے بیان میں امریکی ویٹو کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم کا صلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے حالیہ اقدام سے ثابت ہو گیا کہ امریکا کا پورا جھکاؤ اسرائیل کی جانب ہے، امریکی انتظامیہ فلسطینیوں کے حقوق کو کچلتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے تصفیے میں کوئی رعایت دینا نہیں چاہتی۔ اس موقع پر برھوم نے فلسطینی اتھارٹی سے امریکی بے وفائی سے سبق حاصل کر کے فلسطین کے داخلی محاذ پر توجہ مرکوز کرنے اور تمام فلسطینی جماعتوں میں اتحاد کے لیے سرگرم ہونے کا مطالبہ کیا۔ حماس کے معروف رہنما ڈاکٹر اسماعیل رضوان نے امریکی فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ویٹو سے ثابت ہو گیا کہ وہ اسرائیل کے ماتحت ہے، ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل میں امریکا کی جانب سے قرارداد کو ویٹو کرنا فلسطینی اتھارٹی کے منہ پر بھی ایک زناٹے دار تھپڑ ہے جس نے خود کو امریکا کے سپرد کر رکھا تھا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل امریکا نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے سلامتی کونسل میں یہودی بستیوں کے خلاف پیش کی جانے والی اس قرار داد کی حمایت کیے جانے پر اسے ویٹو کرنے کی دھمکی دی تھی۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی نے جمعہ کی علی الصبح ایک اجلاس میں امریکی دباؤ کو رد کردیا تھا جس کے بعد امریکا نے سلامتی کونسل کے 14 اراکین کے برخلاف اس قرار کو ویٹو کردیا۔ قرار داد کا مسودہ عرب ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا تھا جسے 130ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ اس میں کہا گیا کہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس سمیت 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری غیر قانونی ہے اور پائیدار و جامع امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ سلامتی کونسل کے دیگر چودہ رکن ممالک نے قرار داد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکا سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک ہے اور اس حیثیت سے کسی بھی کارروائی کو روکنے کا مجاز ہے۔ دوسری جانب برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مغربی کنارے پر اسرائیلی آبادکاری کے منصوبوں کی مذمت کی ہے اور انہیں بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوسن رائس نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اس امریکی اقدام کو مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے پر آباد کاری کے منصوبوں کی حمایت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا کی رائے میں اقوام متحدہ دہائیوں سے چلے آ رہے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے حل کی بہترین جگہ نہیں ہے۔ اسرائیل نے اس امریکی اقدام کے ردِعمل میں فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی بحالی پر زور دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یروشلم حکومت صدر اوباما کی جانب سے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے۔