مرکزاطلاعات فلسطین
ایک خفیہ امریکی سرکاری رپورٹ میں چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں انسانی حقوق کے امریکی قوانین کی سینکڑوں بار کھلی خلاف ورزی کی ہے، مگر اب تک اس پر کوئی احتساب نہیں کیا گیا۔
یہ رپورٹ ایک امریکی حکومتی نگران ادارے نے تیار کی ہے جس کے مطابق ان خلاف ورزیوں کی تحقیقات امریکی محکمہ خارجہ کی ذمہ داری ہے جو کئی برسوں تک چل سکتی ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے جس میں امریکی محکمہ خارجہ کے انسپکٹر جنرل کے دفتر نے تسلیم کیا ہے کہ قابض اسرائیل نے غزہ میں ایسے اقدامات کیے جو امریکی قانون ’’لیہی‘‘ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس قانون کے تحت امریکہ کسی بھی غیر ملکی فوجی یونٹ کو امریکہ ایسے اسرائیلی فوجیوں کو عسکری امداد نہیں دے سکتا جو انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں ملوث ہو۔
قانون ’’لیہی‘‘ واضح طور پر ایسے یونٹس کو امریکی امداد دینے سے روکتا ہے جو ماورائے عدالت قتل، اذیت یا دیگر سنگین انسانی جرائم میں ملوث ہوں لیکن ان تمام دستاویزی شواہد کے باوجود امریکہ نے قابض اسرائیل کی فوجی امداد روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
قابض اسرائیل امریکہ کا سب سے بڑا عسکری امداد یافتہ ملک ہے۔ امریکہ ہر سال اسے تقریباً 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔ غزہ میں قابض اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی سنگین خلاف ورزیوں اور اجتماعی قتل عام کے باوجود یہ امداد بلا رکاوٹ جاری ہے، جس نے امریکہ کے اپنے قانونی اور اخلاقی دعوؤں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
رپورٹ میں چند نمایاں واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں اپریل سنہ2024ء میں ’’ورلڈ سنٹرل کچن‘‘ کے سات فلسطینی کارکنوں کا قتل عام، اور فروری سنہ2024ء میں غزہ شہر میں امدادی قافلوں کے قریب 100 سے زیادہ فلسطینیوں کی شہادت شامل ہے۔
رپورٹ میں امریکی نظام کی اس پیچیدہ بیوروکریسی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جو ان غیر ملکی فوجی یونٹس کے جرائم کی جانچ کرتی ہے جنہیں امریکہ سے فوجی امداد ملتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیل کو اس نظام میں خصوصی رعایت حاصل ہے جس کی وجہ سے اس کے خلاف کسی بھی تحقیقات کا عمل سست، غیر شفاف اور دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے سابق افسر چارلس بلاہا نے اس نظام کو ’’غیر مؤثر اور کھوکھلا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے پاس قابض اسرائیل کی درندگی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے واضح شواہد موجود ہیں، اس کے باوجود کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔
رپورٹ میں اس واقعے کا بھی ذکر ہے جس میں سنہ2022ء میں مغربی کنارے کے علاقے میں ایک فلسطینی نژاد امریکی بزرگ شہری عمر الاسعد کو قابض اسرائیلی فوجیوں نے اذیت دے کر شہید کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد بھی قابض اسرائیل نے متعلقہ فوجیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، جبکہ جو بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلی موقف پر اطمینان ظاہر کر دیا۔
یہ رپورٹ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ امریکہ انسانی حقوق کے نعروں کے باوجود قابض اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین سے بالاتر حیثیت دینے میں برابر کا شریک ہے۔