تحریر:صابر کربلائی
سیکرٹری ،فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
امریکہ خود کو عالمی طاقت یعنی سپر پاور سمجھتا ہے۔ یہ ایک ایسے ادھورے خواب کی طرح ہے جس کی کوئی تعبیر ہی نہیں ہے ۔ در اصل امریکہ اس وقت ایسی حالت میں ہے کہ جیسے کسی اور کے لئے گڑھاکھودنا خود
اپنے لئے مصیبت بن جاتا ہے۔جی ہاں! آج کل اس عالمی استعمار اور دہشت گرد امریکہ کی حالت اسی طرح کی ہے۔ مثلاً ،جو گڑھا اس نے آج سے دو عشرے قبل سوویت یونین کے لئے کھودا تھا اب خود اسی گڑھے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بس اب کچھ دیر ہے کہ اپنی غلط پالیسیوں کے باعث وہ اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں خود ہی گر چکا ہوگا ۔
آج نام نہاد سپر پاور امریکہ ایسے مسائل سے دوچار ہے کہ جو قوتیں کل اس کی دوست تھیں، آج اس کے خلاف بر سر پیکار ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی نابودی کا باعث بن رہی ہیں ۔ امریکہ ہر طرح سے ان معاملات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ قوتیں جو کل سوویت یونین کے خاتمے تک امریکہ کا ساتھ دے رہی تھیں، انہوں نے خود کو سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے ہی امریکہ سے الگ کر لیا۔ یعنی یورپ کا اتحاد۔یورپ کے اتحاد اور مشترکہ کرنسی نے امریکہ کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ رہی سہی کسر امریکہ کے ان دوستوں نے جن کو کل تک امریکہ اپنا ہیرو بتاتا تھا اور آج دہشت گرد کہتا ہے ،انہوں نے پوری کر دی ہے۔
آج اگر دنیا میں کہیں سب سے زیادہ قوانین اور اخلاقیات کی پامالی ہو رہی ہے تو وہ جگہ امریکہ ہی ہے ۔دنیا کی سب سے زیادہ قانون کی مخالف اور اس کو پامال کرنے والی حکومت ،امریکی حکومت ہے۔
امریکہ نے ایک خودساختہ جھوٹ اور افواہ کو جواز بناکر عراق پرجنگ مسلط کرکے قبضہ کیا ۔لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کروڑوں عراقی شہریوں کو بے گھر کر دیا۔اسی طرح امریکہ نے عراق سے قبل افغانستان پر دھاوا بولا اور آج تک وہاں ہزاروں نہتے لوگوں کو قتل کرچکاہے۔سی طرح پاکستان میں امریکہ نے جس دہشت گردی کے بازار کو گرم کر رکھا ہے اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں نظر آتی ہے۔ ساتھ ساتھ ماضی کی کئی اہم مثالوں میں جاپان پر ایٹم بم گرانا ، کوریا، ویت نام ، افریقہ اور خلیج فارس کے خطے سمیت کئی علاقوں میں جنگ مسلط کرنے کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
آج امریکہ جس بات کا سب سے زیادہ پرچار یا پروپیگنڈا کرتا ہوا نظر آتا ہے وہ القاعدہ اور طالبان ہیں۔یعنی وہ قوتیں جن کو کل تک امریکہ نے پوری دنیا میں دندنانے کی آزادی دے رکھی تھی اور اپنا ہیرو قرار دیا تھا، آج دنیا کے وسائل پر قابض ہونے کی غرض سے انہی اپنے پرانے دوستوں کو امن کے لئے خطرہ قرار دیتا ہے ۔ جہاں چاہتا ہے اس ملک میں فوجی چڑھائی کر دیتا ہے اور پھر اس کے بعد بہیمانہ طریقے سے وہاں کے عوام کا قتل عام کرتا ہے ۔
کہیں فوجوں کی مدد سے براہ راست انسانیت کا خون بہاتا ہے اور کہیں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈرون طیاروں کے حملوں میں بے گناہ اور نہتے لوگوں کا شکار کر رہاہے۔ یہ سب کچھ امریکہ بہادر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کر رہا ہے یعنی بے گناہ اور نہتے معصوموں کو قتل کرنا امریکی حکومت کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے جو کہ ایک ذی شعور کی سمجھ سے بالاتر بات ہے۔
ایک طرف امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور اپنے مفادات کے لئے انسانی حقوق کا ڈھونگ رچاتا ہے ۔ انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرتے ہوئے آزاد اورخود مختار ممالک کے خلاف گھیرا تنگ کر دیتا ہے ۔ دوسری طرف فلسطین میں امریکی سرپرستی میں اسرائیلی دہشت گردوں کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام پر امریکہ بہادر کی حکومت ہی نہیں، انسانی حقوق کی نام نہاد تبنظیموں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔امریکا اپنے اتحادی ممالک کو بھی مجرمانہ خاموشی اختیار رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
امریکا قانون کی حکمرانی ، انسانی حقوق کی پابندی اور مظلوموں کی حمایت کا دعوی کرتا ہے، لیکن یہ محض کھوکھلے دعوے ہیں، حقیقت اسکے خلاف ہے۔امریکی صدور اپنی تقریروں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم اس کوشش میں ہیں کہ قانون توڑنے والی حکومتیں عوام کے سامنے جواب دیں۔ لیکن میںیہ پوچھتا ہوں کہ دنیا میں امریکی حکومت سے بڑھ کر قانون توڑنے والی حکومت کون سی ہے؟۔
اس کی ناقابل تردید مثالیں موجود ہیں۔امریکی حکومت نے کس قانون کے تحت افغانستان، عراق، پر قبضہ کیا۔کس قانون کے تحت پاکستان میں ڈرون حملے کرتا ہے اور کون سا قانون ہے جو امریکیوں کو کہتا ہے کہ وہ لیبیا ،یمن،فلسطین،افریقہ اور ایشیائی ممالک اور ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے ۔ آخر وہ کون سا قانون ہے کہ جو امریکہ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ذریعے لبنان پر حملہ کرے ۔ 33روز تک نہتے لبنانیوں کا قتل عام کروائے ۔ یہ کون سا قانون ہے جو امریکہ کو اسرائیل کی حمایت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسرائیل غزہ پر حملہ کرے اور 22دن تک فاسفورس بم برساتا رہے لیکن امریکا اقوام متحدہ میں لبنان کا فاع کرنے والی حزب اللہ اور فلسطین کا دفاع کرنے والی حماس کو دہشت گرد قرار دلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ کون سا قانون ہے جو امریکہ کو اجازت دیتا ہے کہ اسرائیل کے ذریعے غزہ کا 4سال سے زائد محاصرہ کروائے رکھے اورغزہ کے 15لاکھ مظلوم عوام پر زندگی تنگ کر دے۔
یہ کون سا قانون ہے جو امریکہ کو اجازت دیتا ہے کہ وہ شام کے اندر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرے ۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کس قانون کے تحت شام کی حکومت کے خلاف مالی بجٹ منظور کرواتی ہے۔
میں دنیا کی با ضمیر اور شریف حکومتوں سے سوال کرنا چاہتا ہوں اور ہر اس انسان سے کہ جس کے سینہ میں دل دھڑکتا ہے ۔ آپ لوگ مجھے بتائیں کہ آخر کون سا ایسا قانون ہے جس نے امریکہ کو اجازت دی ہے کہ وہ درج بالا افعال انجام دے اور دنیا میں جہاں چاہے قتل و غارت کا بازار گرم کرے۔میں سوال کرتاہوں کہ آخر کس قانون کے تحت ابھی تک امریکی افواج دوسرے ممالک خصوصاً افغانستان ، پاکستان، ترکی، بحرین، قطر،اور یمن اور صومالیہ میں موجود ہیں؟
ایک طرف امریکہ ایرا ن کے پرامن ایٹمی منصوبوں کو بند کرنے کی کوششیں کر رہا ہے ۔اور دوسری طرف اسرائیل جیسی غیر قانونی اور غاصب صیہونی ریاست کے ایٹمی اسلحے کے منصوبوں اور ایٹم بموں کو جائز تصور کرتا ہے۔ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کون سے بین الاقوامی قوانین ہیں کہ جن کی رو سے امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل تو ایٹمی ہتھیار بنا سکتے ہیں ۔اور نہ صرف بنا سکتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں مظلوم قوموں پر آزما بھی رہے ہیں۔ جبکہ ایران اور دیگر ممالک جو اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں کوشاں ہیں ،ان پرامریکا اور اس کے اتحادی بعض ممالک پابندی لگا دیتے ہیں۔
اگر اسرائیل کے پاس ۲سو سے زائد ایٹم بم موجود ہوں تو وہ قوانین کے زمرے میں نہیں آتے ۔اور اگر پاکستان ایٹمی طاقت بن جائے تو پاکستان کے ایٹمی منصوبوں کو تہہ و تیغ کرنے کے لئے پاکستان کومکمل غلامی میں لینے کی سازش کی جاتی ہے۔میں پھر یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آخر یہ کون سا قانون ہے جس نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکی حکومت لاقانونیت کا مظہر ہے۔ دنیا کی وہ حکومت جو جنگل کے قانون یعنی بے لگام طاقت کے بے لگام استعمال کے حیوانی اصول پر عمل پیرا ہے وہ امریکی حکومت ہے۔آج فتنہ گر قوتیں جس کام کے پیچھے سنجیدگی سے پڑی ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کے اندر مذہبی اختلافات کو ایجاد کرنا ہے۔ دنیا کے مسلمان علاقوں کی اسٹرٹیجک اہمیت اور تیل اور دیگر قدرتی ذخائر سے مالا مال ہونے کے ناطے عالمی استکباری قوتوں کی نظریں ان پر جمی ہوئی ہیں ۔اور جو چیز انکے پست مقاصد کے سامنے رکاوٹ بنی ہوئی ہے وہ اسلام ہے۔ لہٰذا اس مسئلے سے نپٹنے کیلئے جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے وہ مسلمانوں کے اندر مذہبی اختلافات کو ایجاد کرنا اور انہیں ہوا دینا ہے۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان حقائق کو آشکار کریں اور لوگوں کو دشمن کی سازشوں سے آگاہ کریں۔
یہاں ایک اور بات بھی واضح رہے کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ امریکی دولت کے انبار ختم ہو رہے ہیں ۔امریکہ میں بے روز گاری کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ ہر دو تین ماہ میں درجنوں بینکوں اور کمپنیوں کا دیوالیہ ہو رہا ہے ۔ جس فوجی قوت پر امریکہ کو ناز تھا اس فوجی قوت کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے جس کی تازہ مثال حزب اللہ لبنان کی جانب سے مقبوضہ فلسطین بھیجا جانے والا ایک جاسوس ڈرون طیارہ ہے۔ اس نے امریکی اور اسرائیلی ٹیکنالوجی کو شکست فاش دے دی ہے۔ اس ڈرون طیارے نے چار گھنٹے سے زائد مقبوضہ فلسطین کی فضاؤں میں پرواز کرنے کے ساتھ ساتھ غاصب اسرائیل کی اہم تنصیبات کی معلومات بھی فراہم کیں۔در اصل حزب اللہ کا ڈرون طیارہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی ٹیکنالوجی کا جواب اور امریکہ اور اسرائیل کے منہ پر براہ راست تھپڑ تھا۔
آج امریکہ تنہا ہو تا جا رہاہے ۔ ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ امریکہ جب کسی دوسرے ملک کو اپنی فوجیں بھیجنے کی بات کرتا ہے یا تو اس ملک کی حکومت امریکہ کا ساتھ نہیں دے رہی یا پھر اس ملک کے عوام مزاحمت کر رہے ہیں ۔ یہ ساری مثالیں اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ امریکی خوابوں کی امریکی تعبیر کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹیں موجود ہیں۔آج دنیا میں امریکی حکومت قانون شکنی کی وجہ سے سب سے زیادہ نفرت کی مستحق قرار دی جا رہی ہے۔
دنیا حیران و پریشان ہے کہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لئے قائم کیا جانے والا عالمی ادارہ بھی امریکی حکومت کی قانون شکنیوں اور سازشوں سے محفوظ نہیں رہا ہے ۔آج امریکہ اقوام متحدہ کو ایک کٹھ پتلی کی طرح استعمال کر رہا ہے لیکن کیا یہ کھیل زیادہ عرصہ جاری رہ پائے گا؟
میرا خیال ہے کہ امریکی حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ سنبھل جائے ۔ اپنی اصلاح کرے اور دنیا بھر میں کھولے گئے محاذوں کو بند کر کے اپنے ملک کے عوام کی خدمت کرے۔ اسے سوویت یونین کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہئیے کیونکہ ہر گذرتا ہو لمحہ امریکہ کی نابودی کو قریب لارہا ہے ۔ دنیا کے مظلوم اور مستضعفین کی حکومت کا وقت شروع ہو چکا ہے ۔
آج بھی وقت ہے کہ امریکی حکومت سنبھل جائے ورنہ پھر ہمارے پاس کہنے کو صرف یہ الفاظ ہی باقی ہوں گے۔
’’اب پانی سر سے اونچا ہوچکا، قاضی تقدیر نے اپنا فیصلہ لکھ دیا ہے، جب پلٹنے کا وقت تھا اس وقت تو پلٹے نہیں، اب بس فیصلہ نافذ ہونے کا انتظار کرو۔ میں آسمانوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں کہ بہت جلد تم اب مجھ سے آن ملنے والے ہو۔ اس زمین کا مقدر آخری نبی ؐکی امت سے وابستہ کردیا گیا ہے،۔اٹھارہویں صدی اس امت پر غلامی کی صدی تھی۔ انیسویں صدی میں اس امت میں بیداری کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں نے آزادیاں حاصل کیں۔ لیکن تمہاری معاشی، سیاسی اور تہذیبی بیڑیاں ان کے دامن گیر رہیں،۔اب بہت جلد یہ امت تمہاری مسلط کی ہوئی مصنوعی قیادت سے چھٹکارا پانے والی ہے ۔اور اس کرہ ارض سے تمہارا بوریا بستر گول ہونے والا ہے۔ میں بھی انتظار کررہا ہوں، تم بھی منتظرر ہو‘‘۔