امریکا نےاسرائیل اورفلسطینیوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی بحالی کے لیے فلسطینی صدرمحمودعباس کو نجی سطح پر یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر صہیونی ریاست یہودی آباد کاری کا عمل جاری رکھتی ہے تو وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کی مذمت کے لیے کسی قرارداد کی مخالفت نہیں کرے گا۔
اس بات کا انکشاف برطانیہ کے موقر روزنامے گارڈین مِیں جمعرات کوشائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔اخبار نے لکھا ہے کہ امریکا کی جانب سے یقین دہانی ایک سینئرسفارتکار نے گذشتہ ہفتے فلسطینی صدرمحمود عباس کے ساتھ ایک ملاقات میں کرائی ہے اور اس کے بعد ایسے اشارے ملے تھے کہ اسرائیلی اورفلسطینی قیادت کئی ماہ کے تعطل کے بعد بالواسطہ مذاکرات شروع کرنے پرآمادہ ہے۔
فلسطینی صدراور امریکی سفارتکار کے درمیان ملاقات میں طے پائے امورکی دونوں جانب سےسرکاری سطح پر تصدیق نہیں کی گئی اور فلسطینیوں کے اعلیٰ مذاکرات کار صائب عریقات نے ایسی کسی یقین دہانی کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”یہ اطلاع درست نہیں اورہم ابھی تک امریکیوں سے بات چیت کررہے ہیں”۔
لیکن دوسری جانب ایک فلسطینی ذریعے نے امریکا کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی نمائندے جارج میچل کے نائب ڈیوڈ ہیل کی محمود عباس سے ملاقات کی تفصیل بتائی ہے اور کہا ہے کہ ڈیوڈ ہیل نے فلسطینی صدر سے کہا تھا کہ صدر براک اوباما بالواسطہ بات چیت کے آغاز کے بعد امن عمل کو آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
سفارتکارکا کہنا ہے کہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ مذاکرات کی بحالی کی راہ میں بعض رکاوٹیں حائل ہیں اور وہ اسرائِیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر کو اشتعال انگیزقراردیتا ہے۔انہوں نے محمود عباس کو بتایا کہ امریکیوں کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ مقبوضہ مشرقی بیت القدس میں رامات شلومو یہودی بستی میں نئے مکانوں کی تعمیر کے منصوبے کو آگے نہیں بڑھایا جائے گا۔
اسرائیل نے گذشتہ ماہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے دورے کے موقع پر اس یہودی بستی میں سولہ سو نئے مکانوں کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کی جو بائیڈن نے سخت الفاظ میں مذمت کی تھی اور بعد میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی اس اعلان کو اشتعال انگیز قرار دیا تھا۔
تب ڈیو ڈہیل نے محمود عباس سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر مقبوضہ بیت المقدس سمیت یہودی آبادکاری کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اسرائیل کے خلاف اسے اس منصوبے پر عمل درآمد سے باز رکھنے کے لیے اقدام کی اجازت دے گا جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی کسی قرارداد کی صورت میں وہ اپنا ویٹو کا اختیارتو استعمال نہیں کرے گا لیکن اس پر رائے شماری کے وقت اجلاس سے غیر حاضر رہے گا۔
امریکا کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کسی بھی قراردادکو ویٹو نہ کرنے کا فیصلہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے اوراس سے امریکا کے اپنے ایک دیرینہ اتحادی ملک کے خلاف غصے کا بھی اظہار ہوتا ہے۔تاہم حکام نے یہ واضح نہیں کیا کہ اسرائیل کی جانب سے کونسا اقدام اشتعال انگیزی کے زمرے میں آئے گا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں اسی ہفتے ایک تحریر شائع ہوئی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے فلسطینی صدر محمود عباس کو ایک خط دیا گیا ہے جس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ واشنگٹن اسرائیل کی مذمت میں کسی قراردادکی مخالفت نہیں کرے گا۔
مگر فلسطینی ذرائع نے گارڈین کو بتایا ہے کہ امریکا کی جانب سے فلسطینی صدر کو یقین دہانی صرف زبانی کلامی تھی اور تحریری نہیں تھی کیونکہ امریکا اس کی تفصیل کو خفیہ ہی رکھنا چاہتا ہے۔
صائب عریقات کا کہنا ہے کہ ”ہم بالواسطہ بات چیت شروع کرنے کے لیے اتفاق رائے کے قریب تھے کیونکہ ہم صدراوباما اور جارج میچل کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہمیں آزادی دلاسکیں۔
واضح رہے کہ فلسطینی یہودی بستیوں کی تعمیر کا عمل مکمل طور پر منجمد ہونے تک اسرائیل کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرچکے ہیں اورصائب عریقات سے جب یہودی بستیوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے لفظوں سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ ہمیں یہودی بستیوں کو منجمد کرنے کے لیے کوئِی عملی کام ہوتا نظر آنا چاہیے”۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک سیاسی مشیر ہانی المصری کا کہنا ہے کہ ”امریکی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اسی فریق کو مورد الزام قراردیں گے جو امن عمل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے گا”۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسا ہوتا نظرنہیں آتا کہ امریکااقوام متحدہ کو اسرائیل پر قدغنیں لگانے کی اجازت دے گا۔ان کے الفاظ میں ”امریکا اسرائیل کو سلامتی کونسل کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑے گا”۔