مقبوضہ بیت المقدس ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
سابق قابض اسرائیلی قیدی میتان تسنجاوکر نے القسام بریگیڈز کی قید میں اپنے تجربات کی تفصیلات بیان کیں اور کہا کہ وہ بے گھر لوگوں کے خیموں کے درمیان قیدیوں کی نگرانی میں آزادانہ طور پر گھوم رہا تھا، جبکہ قابض اسرائیل کی افواج چند میٹر کی دوری پر موجود تھیں مگر اسے نہیں پکڑ سکیں۔
تسنجاوکر نے عبرانی چینل 13 کو بتایا کہ القسام کے لڑاکاوں نے اس کے ساتھ انسانی رویہ اختیار کیا اور قید کے دوران باقاعدگی سے اسے خوراک فراہم کی۔ اس نے کہاکہ “کسی نے بھی مجھ پر ظلم نہیں کیا، وہ مجھے قریب سے دیکھ رہے تھے، مگر خوراک، پانی اور مناسب سلوک فراہم کیا گیا”۔
اس نے واضح کیا کہ اسے رہا کروانے میں ان کی والدہ کا کردار اہم رہا، جنہوں نے عوامی احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے قابض اسرائیل کی حکومت پر دباؤ ڈالا تاکہ قیدیوں کو آزاد کرایا جا سکے۔ تسنجاوکر نے کہا، “ان کی ثابت قدمی اور کھلے موقف نے معاملے کو آگے بڑھانے اور تبادلے کے معاہدے کو کامیاب بنانے میں مدد دی۔”
تسنجاوکر نے قابض اسرائیل کی حکومت کے رویے پر گہری مایوسی کا اظہار کیا اور کہا “آج مجھے بہت درد محسوس ہو رہا ہے کیونکہ جو کل ہمارے ساتھ یکجہتی کرتے تھے، وہ آج ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنی ضروریات خود پوری کریں، جبکہ حکومت اپنی ذمہ داری سے غافل ہے”۔
تسنجاوکر کو حماس نے پہلی مرحلے میں 22 قابض اسرائیلی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا، جو 11 اکتوبر سنہ2025ء کو شرم الشیخ میں ہونے والے فائر بندی کے معاہدے کے تحت ہوا۔
یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نگرانی میں مصر، قطر اور ترکیہ کی ثالثی کے بعد طے پایا، جس کے مطابق 13 اکتوبر کو حماس نے 20 اسرائیلی قیدی آزاد کیے اور 28 دیگر کی لاشیں واپس کیں، جن میں سے قابض اسرائیل نے اب تک 24 وصول کر لی ہیں۔ دوسری مرحلے میں کمیونٹی امداد کمیٹی قائم کی جائے گی تاکہ غزہ کی صورت حال، انسانی امداد اور تعمیراتی منصوبوں کا انتظام کیا جا سکے۔