فلسطینی مجلس قانون سازمیں اسلامی تحریک مزاحمت –حماس- کے پارلیمانی بلاک “اصلاح وتبدیلی” اور سابق وزیر برائے القدس امور خالد ابوعرفہ نےانکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے بیت المقدس کی 300 اہم شخصیات کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ ملک بدری کی منصوبے میں شامل ان تمام شخصیات کا تعلق فلسطین کی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے یا ان کا کوئی اہم سیاسی کردار رہا ہے۔ ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں ابوعرفہ نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی شخصیات کو القدس بدر کرنے کی منصوبہ بندی شہر کو یہودیت میں تبدیل کرنے اور فلسطینی وجود سے مقدس شہر کو پاک کرنے کے ان مذموم عزائم کا حصہ ہے جو گذشتہ طویل عرصے سے مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل القدس کے پوری فلسطینی اور عرب آبادی کو وہاں سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ، تاہم بیک وقت تمام آبادی کو ملک یا شہر بدر کرنا ناممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے مخصوص اور چیدہ چیدہ شخصیات کو شہر بدر کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے، تاکہ ان سرکردہ شخصیات کو شہر سے نکالے جانے کے بعدان کے خاندان کے دیگر افراد اور بعد ازاں دیگر عام شریوں نے بے دخلی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ مجلس قانون ساز کے رکن کا کہنا تھا کہ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ القدس کی سرکردہ شخصیات کو شہر سے نکالنے اور ملک بدر کرنے کے اقدامات پر عرب اور اسلامی دنیا خاموش تماشائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، عرب اور اسلامی ممالک نے القدس کے فلسطینی شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا نہ کیا تو شہر کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ خال ابوعرفہ نے کہا کہ بیت المقدس کی چیدہ شخصیات کو شہر بدر کرنےکا منصوبہ ایک ایسے وقت میں تیار کیا جا رہا ہے جبکہ اسرائیل نے حال ہی مغربی کنارے سے فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کے فوجی قانون پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہے۔ اسرائیل کےفوجی قانون 1650 کی رو سے مغربی کنارے میں فلسطین کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو نکال باہر کرنے کے منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے، اس ظالمانہ قانون کے تحت مغربی کنارے سے غزہ ، بیت المقدس، اور فلسطین کے دیگر شہروں کے 70 ہزار افراد کو نکالنے کی سازش پر عمل جاری ہے۔