اسرائیلی انتظامیہ نے مغربی کنارے کے سب سے بڑے ضلع الخلیل کے شہر ظاھر یہ کےجنوبی علاقے رماضین کی ایک مسجد کو مسمار کرنے کے احکامات جاری کیے تھے جس کی شدید مذمت میں اہل علاقہ نے اسی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی شرکت کی مہم شروع کردی ہے۔ رماضین کے علاقے کے باسیوں کو مسجد ’’علی ابن ابی طالب‘‘ وادی سلطان کے ایک اسکول اور طبی مرکز کے ساتھ آٹھ رہائشی گھروں کو منہدم کرنے کے آرڈرز جاری کیے گئے ہیں۔ فلسطینی پیپلز کمیٹی کے سیکرٹری جنرل انجینئیر عزمی شیوخی کا کہنا ہے ’’مسجد، اسکول، طبی مرکز اور گھروں کو گرانے کی نوٹسز سے ثابت ہو گیا کہ اسرائیل کو ہمارا دین، تعلیم، صحت اور ہمارا وجود تک برداشت نہیں۔ وہ نماز، تعلیم، صحت، رہائش غرض ہر شعبہ زندگی تباہ کرنا چاہتا ہے۔ الشیوخی نے تمام ذرائع ابلاغ اور تمام سیاسی رہنماؤں سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی جرائم کے قلع قمع کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے تمام ملکی اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اہالیان رماضین کے خلاف اسرائیلی حکومت کی انتہاء پسندانہ کارروائیوں کے آگے بند باندھنے میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ الشیوخی نے بتایا کہ رماضین کے رہائشی سنہ 1948ء کو اسرائیلی جارحیت میں اپنے علاقوں سے بے دخل کردیے گئے تھے وہ 1967ء کی جنگ سے قبل کے فلسطینی علاقوں کی حدود میں آکر بس گئے تاہم اس وقت سے اسرائیلی حکام نسلی دیوار اور دیگر متعصبانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے انہیں پریشان کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سنہ 1948ء کی جنگ کے بعد ان کے پاس 1000 ایکڑ کے قریبی اراضی باقی رہ گئی ہے، علاقے کے اطراف اور راستوں پر یہودی بستیاں تعمیر کی جاچکی ہے۔ حالیہ انہدامی آرڈرز کے ذریعے اسرائیل اہالیان رماضین کو ہجرت پر مجبور کرکے باقی بچ رہنے والی اراضی پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔