غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جاری جنگ نے غزہ کی معیشت کو جڑ سے تباہ کر دیا ہے اور پورے علاقے کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عالمی ادارے نے فوری اور بڑے پیمانے پر بین الاقوامی مداخلت کی اپیل کی ہے۔
اقوام متحدہ کی تجارت اور ترقی کی ایجنسی اونکٹاد نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا کہ غزہ کی دوبارہ تعمیر پر اخراجات 70 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر جائیں گے اور یہ عمل کئی دہائیوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل کی جنگ اور اس کے مسلط کردہ ظالمانہ پابندیوں نے فلسطینی معیشت کو ایسی تباہی سے دوچار کیا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ نے غزہ کی زندگی کے ہر ستون کو چکنا چور کر دیا ہے جن میں خوراک، رہائش، صحت کی خدمات اور بقا کے بنیادی عوامل شامل ہیں۔ یہ جنگ غزہ کو انسان کے پیدا کردہ اندھے کنویں میں دھکیل چکی ہے جبکہ جاری اور منظم تباہی نے اس علاقے کی اس صلاحیت پر بھی سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا وہ دوبارہ ایک بسنے کے قابل معاشرے کے طور پر کھڑا ہو سکے گا۔
غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار جنہیں اقوام متحدہ معتبر سمجھتی ہے کے مطابق قابض اسرائیل کی فضائی بمباری اور زمینی کارروائیوں میں کم از کم 69 ہزار 756 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
جنگ نے غزہ میں تباہی اور انسانی بحران کی وہ سطح پیدا کی ہے جس نے بعض علاقوں میں قحط کا اعلان کروا دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تباہی کی موجودہ صورتحال نے ایک ساتھ متعدد معاشی انسانی ماحولیاتی اور سماجی بحرانوں کو جنم دیا ہے اور غزہ کو ترقی کے زوال سے مکمل بربادی میں بدل دیا ہے۔
اونکٹاد نے مزید بتایا کہ اگر دہائیوں تک جاری رہنے والی دہری ہندسوں کی شرح والی معاشی نمو بھی حاصل ہو جائے اور بڑے پیمانے پر بیرونی امداد بھی فراہم کر دی جائے تب بھی غزہ کو وہ سطح واپس پانے میں کئی عشرے لگیں گے جس پر وہ سنہ 2023 کے اکتوبر سے پہلے تھا۔
رپورٹ میں غزہ کے لئے ایک ہمہ جہت بحالی منصوبے کی سفارش کی گئی ہے جس میں مربوط بین الاقوامی امداد مالیاتی منتقلیوں کی بحالی تجارت نقل و حرکت اور سرمایہ کاری پر پابندیوں میں نرمی شامل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر فرد کے لئے ایک ایسی ہنگامی بنیادی آمدنی کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جس کے تحت تمام شہریوں کو ماہانہ بلا شرط مالی اعانت ملے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ کی معیشت سنہ 2023 اور 2024 کے درمیان 87 فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ فی کس آمدنی گر کر صرف 161 ڈالر رہ گئی ہے جو دنیا کی نچلی ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔
رپورٹ میں مغربی کنارے کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اگرچہ حالات غزہ جتنے تباہ کن نہیں تاہم وہاں بھی قابض اسرائیل کے مسلسل تشدد تیزی سے پھیلتے بسیتوں اور مزدوروں کی آمد و رفت پر پابندیوں نے معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ یہ سنہ 1972 میں اعداد و شمار کے باقاعدہ ریکارڈ کے آغاز کے بعد بدترین معاشی زوال ہے۔