مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
دو نومبر سنہ1917ء کو برطانوی وزیرِ خارجہ آرتھر جیمز بلفور نے صہیونی تحریک کے رہنما لارڈ روتھ شائلڈ کے نام ایک مختصر خط لکھا، جس میں اس نے وعدہ کیا کہ برطانیہ ’’فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی وطن‘‘ کے قیام کی حمایت کرے گا۔ بعد ازاں یہ خط ’’ اعلان بلفور‘‘ کے نام سے تاریخ میں ایک ایسے سیاہ باب کے طور پر درج ہوا جس نے نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کی تقدیر بدل دی۔
اس خط میں برطانوی حکومت نے وعدہ کیا کہ وہ اس ہدف کے حصول میں مدد فراہم کرے گی، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس سے فلسطین میں غیر یہودی آبادی کے مذہبی و شہری حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔ تاہم یہ صرف ایک فریبِ نظر تھا، کیونکہ اس 67 الفاظ کے خط نے ایک ایسی تباہی کو جنم دیا جو آج بھی جاری ہے ۔ ایک ایسا زخم جو ایک صدی گزرنے کے باوجود نہیں بھرا۔
فلسطینی قوم اس دن کو ’’یومِ سیاہ‘‘ قرار دیتی ہے، کیونکہ یہی وہ دن تھا جب ان کی سرزمین پر سے ان کی ملکیت چھینی گئی، انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور ہزاروں شہید و زخمیوں کے خون سے انگریز سامراج اور صہیونی منصوبے نے اپنا استعماری نقشہ تیار کیا۔
اس وقت برطانیہ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد فلسطین پر قابض تھا۔ اس نے وہ سرزمین جس پر فلسطینی قوم ہزاروں سال سے آباد تھی، ان صہیونیوں کے حوالے کر دی جنہیں اس زمین پر کوئی حق حاصل نہ تھا۔ یوں برطانیہ نے وہ تحفہ بانٹ دیا جو اس کی ملکیت ہی نہیں تھی۔
تباہ کن اثرات اور ابدی مصیبت
اعلان بلفور کے بعد صہیونی منصوبہ مسلسل طاقت پکڑتا گیا۔ نتیجتاً سنہ1948ء میں قابض اسرائیل کے قیام کے ساتھ فلسطین کی 500 بستیاں مٹ گئیں، لاکھوں فلسطینی اپنی سرزمین سے بے دخل کر دیے گئے اور آج تک دنیا کے کونے کونے میں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اب جب کہ 108 سال گزر چکے ہیں، وعدۂ بلفور کا سایہ آج بھی فلسطینی زندگی کے ہر گوشے پر محیط ہے۔ غزہ پر دو سال طویل نسل کشی کی جنگ، غرب اردن میں بڑھتی ہوئی صہیونی آباد کاری، القدس میں جبری انخلا، اور محاصرہ یہ سب اسی تاریخی وعدے کے تسلسل ہیں جس نے ظلم کو قانونی جواز دیا اور دنیا کی طویل ترین قابض طاقت کی بنیاد رکھی۔
آج فلسطینی قوم اسی برطانوی سیاہی سے لکھے گئے وعدے کی قیمت خون اور بارود سے ادا کر رہی ہے، جب کہ عالمی ضمیر ایک صدی سے زیادہ عرصے سے خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
اس کے باوجود فلسطینی قوم نے نہ بھولنے کا فیصلہ کیا ہے نہ جھکنے کا۔ وہ آج بھی اپنے حقِ واپسی، آزادی اور خودمختاری کے لیے پُرعزم ہے۔
فلسطینی مسئلہ دوبارہ عالمی ایجنڈے پر
لبنان میں اسلامی تحریکِ مزاحمت حماس کے شعبۂ عوامی اُمور نے کہا ہے کہ فلسطینی مسئلہ ایک بار پھر عالمی سطح پر مرکزی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اعلان بالفور اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والا قابض اسرائیل کا وجود اب اپنے خاتمے کے قریب ہے، کیونکہ فلسطینی عوام کے صبر، مزاحمت اور قربانیوں نے عالمی رائے عامہ کو جھنجھوڑ دیا ہے۔
حماس کے بیان کے مطابق فلسطینی قوم اب بھی اُس مجرمانہ وعدے کی قیمت ادا کر رہی ہے جس نے ’’فلسطین کی سرزمین پر ایک دہشت گرد صہیونی ریاست‘‘ قائم کی، ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکا اور پورے خطے کو نسل کشی اور درندگی کے مسلسل طوفان میں دھکیل دیا — جس کی تازہ ترین مثال غزہ پر جاری جارحیت ہے جو ’’طوفانِ الاقصیٰ‘‘ کے بعد عروج پر پہنچی۔
ظلم کا تسلسل اور عالمی برادری کی ذمہ داری
بین الاقوامی تنظیم ’’حشد‘‘ (الہیئۃ الدولیۃ لدعم حقوق الشعب الفلسطینی) نے اپنے بیان میں کہا کہ اعلان بلفور کی 108ویں برسی دراصل فلسطینی قوم پر ظلم کے ایک صدی طویل تسلسل کی علامت ہے، جس کی جدید شکل آج غزہ پر جاری نسل کشی ہے۔
تنظیم کے مطابق یہی وعدہ فلسطینی نکبۃ کی جڑ بنا، جس نے قابض اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی، لاکھوں فلسطینیوں کو در بدر کیا اور انسانیت کے خلاف بدترین جرائم کا سلسلہ شروع کیا۔
’’حشد‘‘ نے واضح کیا کہ گذشتہ دو برس سے غزہ پر جاری محاصرہ اور قتل عام اعلان بلفور کی براہِ راست توسیع ہے، کیونکہ قابض اسرائیل کو مغربی طاقتوں کی سیاسی و قانونی سرپرستی حاصل ہے جو اس کی نسل کشی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
تنظیم نے برطانیہ کی جانب سے حالیہ ’’فلسطینی ریاست‘‘ کے اعتراف کو محض ایک علامتی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے برطانیہ کی تاریخی اور قانونی ذمہ داری ختم نہیں ہو سکتی۔ برطانیہ کو اپنے جرم کا اعتراف، فلسطینی عوام سے معافی اور مکمل معاوضہ ادا کرنا چاہیے، نیز قابض اسرائیل کے لیے ہر قسم کی عسکری و سیاسی امداد فوراً بند کی جائے۔
’’حشد‘‘ نے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت قابض اسرائیل کے خلاف کارروائی کرے، غزہ کے شہریوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے، جنگی جرائم کی تحقیقات تیز کرے اور مجرموں کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
فلسطینی حق ابدی ہے
108 سال بعد بھی فلسطینی قوم اپنے ابدی حق زمین، آزادی اور واپسی سے دستبردار نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنے دکھ کو مزاحمت میں بدل دیا، اپنے زخموں سے صبر اور اپنے ماضی سے شعور پیدا کیا۔
ہر مسمار بستی، ہر پناہ گزین کیمپ اور ہر نئی فلسطینی نسل میں یہ یقین زندہ ہے کہ حقوق بیانات سے نہیں بلکہ استقامت اور قربانی سے حاصل ہوتے ہیں۔
ایک صدی گزرنے کے باوجود اعلان بلفور کا زخم ابھی تک کھلا ہے، مگر اسی زخم سے فلسطینی زندگی اور امید کا پیغام تراش رہے ہیں۔ وہ اپنے خون سے وہ سچ لکھ رہے ہیں جسے برطانوی سیاہی نے جھٹلایا تھا۔ فلسطینی ثابت کر رہے ہیں کہ زمین ان ہی کی ہے اور ایک دن انصاف ضرور واپس آئے گا — کیونکہ باطل کے وعدے مٹ جاتے ہیں مگر حق ہمیشہ باقی رہتا ہے۔