Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

اقوام متحدہ

اسرائیل کے جرائم میں امریکہ اور مغرب کا کردار اجاگر، یو این عہدیدار کی تنقید

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

اقوام متحدہ کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق خصوصی مقررہ فرانسسکا البانیز نے بڑی یورپی طاقتوں پر سخت الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف جاری نسل کشی میں براہ راست شریک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی عسکری، سیاسی اور اقتصادی معاونت ہے جس نے قابض اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی مذمتوں کے باوجود اپنی سفاکیت جاری رکھنے کا جرأت بھرا راستہ فراہم کیا۔

برطانوی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی کو دیے گئے طویل انٹرویو میں البانیز نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے گذشتہ جولائی میں ان پر عائد کی گئی پابندیوں کے باوجود وہ اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان پابندیوں کا پس منظر ان کا وہ جامع رپورٹ تھا جس میں انہوں نے 60 سے زیادہ کمپنیوں کے کردار کو بے نقاب کیا تھا جو قابض اسرائیل کی معیشت کو نسل کشی پر مبنی معیشت میں بدلنے میں شریک تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب بھی 63 ممالک کے کردار کی چھان بین کر رہی ہیں جنہوں نے اس اجتماعی جرم کو ممکن بنایا یا اس پر آنکھیں بند کر لیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل عالمی اقتصادی ڈھانچے میں گہرے طور پر پیوست ہو چکا ہے، چاہے وہ اسلحہ سازی ہو، ٹیکنالوجی ہو، نگرانی کے نظام ہوں یا امریکہ کی خارجہ پالیسی کے ساتھ اس کے اسٹریٹجک تعلقات۔ یہی عناصر اس کے عالمی تنہائی کو عملاً ناممکن بنا دیتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اگر اسے اسٹریٹجک، اقتصادی، عسکری اور سفارتی پشت پناہی میسر نہ ہوتی تو اس کی یہ طویل مجرمانہ مہم کبھی جاری نہ رہ پاتی۔

وہ اپنا گذشتہ 28 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باضابطہ رپورٹ پیش نہ کر سکیں اور انہیں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن سے خطاب کرنا پڑا۔

اس خطاب کے دوران ان کے پس منظر میں نیلسن منڈیلا کی تصویر نمایاں تھی۔ انہوں نے کہا کہ منڈیلا انسانیت، حق اور نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی علامت ہیں اور میرا ان کی تصویر کے سامنے کھڑا ہونا ایک انتہائی علامتی لمحہ تھا۔

برطانوی کردار اور نسل کشی میں شمولیت

برطانیہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے البانیز نے کہا کہ لندن نے کارروائیوں میں اس طرح حصہ ڈالا جس کے بغیر قابض اسرائیل کی جنگی مشین کو وہ قوت میسر نہ آتی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ برطانوی فوج نے غزہ کی فضاؤں میں 600 سے زیادہ نگرانی مشن انجام دیے جن کی معلومات قابض فوج کے ساتھ براہ راست شیئر کی گئیں۔ اس کے علاوہ قبرص میں برطانوی اڈے امریکی افواج نے تل ابیب کو عسکری رسد پہنچانے کے لیے استعمال کیے۔

انہوں نے شدید الفاظ میں اس برطانوی سرکاری موقف کی مذمت کی جس نے غزہ میں فلسطینیوں کو بھوکا رکھنے اور بنیادی خدمات کی تباہی کو جواز فراہم کیا، جو ان کے مطابق نسل کشی کے لیے راہ ہموار کرنے کا براہ راست حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب برطانیہ کی حکومت ایک طرف فلسطین ایکشن کے کارکنوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے اور دوسری جانب اس ریاست کی پشت پناہی کرتی ہے جو نہتّے فلسطینیوں کے خلاف حقیقی دہشت پھیلا رہی ہے تو یہ خطرناک اور مکروہ تضاد پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ نہیں کہتی کہ فلسطین ایکشن کے تمام طریقے قانونی حدود میں آتے ہیں، مگر انہیں دہشت گردی کہنا دہشت گردی کے مفہوم ہی کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

البانیز کے مطابق جب ایک حکومت سویلین تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بناتی ہے جو نسل کشی کے حقائق سامنے لا رہے ہیں، اور ساتھ ہی اس نسل کشی کی مرتکب ریاست کو تحفظ دیتی ہے، تو یہ ماحول کھلے تواطؤ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا برطانیہ کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ ممکن ہے تو انہوں نے کہا کہ شواہد کافی ہیں اور قومی عدالتی اداروں کو متحرک ہونا ہوگا۔ انہوں نے کہا: وقت آ چکا ہے کہ عدلیہ اپنی حقیقی ذمہ داری نبھائے اور اس جرم میں شریک عناصر کا محاسبہ کرے۔

یورپ کا آزمائشی لمحہ

یورپ کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کے ساتھ یورپی شراکت داری معاہدے کی تجارتی شق کو معطل کرنے کی تجویز جرمنی اور اٹلی کی مخالفت کے سبب التوا کا شکار ہے۔ حالانکہ ان دونوں ممالک پر نسل کشی روکنے کی خصوصی تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ کا بدترین اتفاق ہے کہ ایک صدی گزرنے کے باوجود یہی دونوں ممالک پھر غلط سمت کھڑے ہیں، جبکہ سلووینیا اور اسپین سمیت کئی یورپی ممالک آزادانہ طور پر پابندیاں اور اسلحہ بندش نافذ کر چکے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ بین الاقوامی قانون یورپی یونین کے فیصلوں سے ختم نہیں ہوتا اور تمام رکن ممالک عالمی عدالت انصاف کے اس حکم کے پابند ہیں جس میں وہ اس ملک کو اسلحہ منتقلی روکنے کا کہتی ہے جس پر جنگی جرائم کا شبہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ جرمنی پر خاص طور پر دوہری ذمہ داری ہے کیونکہ اس کا تاریخی کردار اسے مزید حساس بناتا ہے، لیکن افسوس کہ جرمنی ایک بار پھر تباہی کو روکنے میں ناکام رہا۔

انہوں نے یورپ کے رویے کو کھلا نفاق قرار دیا اور کہا کہ یورپی یونین تجارتی معاہدوں کو قانونی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے بطور ڈھال استعمال کر رہا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

عدالت اور سیاسی دباؤ کا مقابلہ

انہوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت پر زور دیا کہ وہ قابض اسرائیل کے مجرم رہنماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے سے نہ رکے، چاہے امریکہ اس کے ججوں اور ارکان پراسیکیوشن کو دھمکیاں ہی کیوں نہ دے۔

انہوں نے کہا عالمی انصاف کو سیاسی مافیا کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں۔ اگر عدالت دباؤ میں آ گئی تو عالمی عدالتی نظام کا باقی ماندہ ڈھانچہ بھی زمین بوس ہو جائے گا۔

یورپی ممالک کی طرف سے قابض وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کے طیارے کو فضائی راستہ دینے پر انہوں نے کہا کہ یہ عالمی عدالت کے نظام کی کھلی توہین ہے اور ان ممالک کو جرم میں شامل فریق بنا دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام تر سیاسی رکاوٹوں کے باوجود وہ بین الاقوامی قانون پر اپنا ایمان برقرار رکھتی ہیں، جیسے کوئی ڈاکٹر محض اس لیے طب پر ایمان نہیں چھوڑ دیتا کہ کبھی علاج ناکام ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ قانون ناکام نہیں ہوا بلکہ اسے نافذ ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ ضرورت بہادر قیادت کی ہے، نہ کہ ایسے وکلاء کی جو ریاستی جرائم کو قانونی لبادہ پہنائیں۔

آخر میں انہوں نے کہا: نسل کشی روکنے کے لیے عقل نہیں شجاعت درکار ہوتی ہے اور عالمی انصاف ہی وہ آخری نظام ہے جو دنیا کو جنگ نہیں امن کی بنیاد پر چلا سکتا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan