اسرائیل مغربی دنیا کا ایک اہم جزء ہے ؛ وہ مغرب جس کی جڑیں مسیحیت اوریہودیت کی جڑوں میں پیوست ہیں اوراگرمغربی تمدن سے یہودیت کا عنصر ختم ہوجائے اوراسرائیل نابود ہوجائے تومغرب کا انجام بھی تباہی کی صورت میں نکلے گا کیونکہ مغربی ملکوں کا مستقبل اسرائیل سے وابستہ ہے اوردونوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونے کا مطلب تباہی ونابودی ہے ۔یہ وہ جملہ ہے جواسپین کے سابق وزیر اعظم خوزہ ماریا ازنار نے لند ن سے شائع ہونےوالے اخبار ٹائمزمیں اپنے مقالے میں لکھا ہے ۔ انیس سوچھیانوے سے سن دوہزار چارتک اسپین کے وزیراعظم رہ چکے ازنارنے اپنے اس مقالے میں دواہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ایک یہ کہ (( اسرائیل تباہی اورزوال کی طرف بڑھ رہا ہے )) اوردوسرے یہ کہ اسرائیل کی نابودی کا مطلب مشرق وسطی میں مغرب کے اقتدار کے سورج کا غروب ہونا ہے ))یہاں اس بات کا ذکرضروری ہے کہ کچھ عرصے قبل تک اگرکوئي اسرائیل کی نابودی کی بات کرتا تھا تواس کی اس طرح کی باتوں کومحض تخیلاتی اوروہم قراردیا جاتا تھا مگرآج اسرائیل کی نابودی کا تصورمغربی ملکوں کے لئے ایک ڈراونا خواب بن گیا ہے ۔جس وقت لندن کے اخبارٹائمزمیں اسپین کے سابق وزیر اعظم کا یہ مقالہ شائع ہوا اسی وقت اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارنوت نے بھی اسرائیلی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر ((یوراہم برگ )) کے حوالے سے لکھا کہ اسرائیل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے اورہم جلدہی اسرائیل میں مغرب سے آنےوالے یہودیوں اورافریقہ وعرب ملکوں سے آکربسنے والے یہودیوں کے درمیان محاذآرائی کا مشاہدہ کریں گے ۔ خوف واندیشے کے اسی ماحول میں ہی صہیونی حکومت کی اعلی عدالت نےاسرائیل کے مغرب نژاد یہودی طلباء کے والدین کوخبردارکیا ہے کہ اگران کے بچوں نے افریقہ اورعرب نژاد یہودیوں کے بچوں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے انکار کیا تو انھیں جیل بھیج دیا جائے گاعدالت کے اس حکم کے بعد اسرائیل کے ایک بڑے یہودی قبیلے ہریڈی کے افراد نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سخت احتجاجی مظاہرہ کیا ۔اسی صورت حال کے پیش نظرہی صہیونی حکومت کی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر یورہم برگ نے کہا کہ ہریڈی قبیلے کے یہودی عملی طورپر اسرائیلی معاشرے سے الگ ہوگئے ہيں ۔اس کے علاوہ کاروان آزادی پراسرائیلی فوج کے حملے پرہونے والے عالمی سطح کے احتجاج سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ بین الاقوامی سطح پراسرائیل کی جورہی سہی حیثیت تھی وہ بھی جاتی رہی ۔جبکہ تل ابیب کے لئے مغرب کی کھلی حمایت میں مغرب کا سکوت اورشک وتردید بھی صہیونیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہورہی ہے ۔اسی لئے اسپین کے سابق وزیر اعظم نے مغربی ملکوں کوللکارتے ہوئے اپنے اس مقالے میں لکھا ہے کہ دنیا والوں کی ناراضگی کی پرواہ مت کرو اورایک ایسی حکومت کے بارے میں جس کے قیام کی منظوری اقوام متحدہ نے دی ہے کسی طرح کا شک وشبہہ نہ کرو۔ البتہ اسپین کے سابق وزیر اعظم اپنے اس مقالے میں ایک مقام پرمایوسی کے عالم میں لکھتے ہيں کہ اسرائیلی حکومت گذشتہ ساٹھ برسوں سے مختلف جنگیں کررہی ہے اوروہ اپنی بقاء کوجاری رکھنے کے لئے ایسی جنگیں کرنے پرمجبورہے ۔اگر اسپین کے سابق وزیراعظم کے اس جملے پرغورکریں تونظرآئے گا کہ وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہيں کہ فلسطینی قوم نے اپنی پہنچان دوبارہ حاصل کرلی ہے اورمسلمانوں ميں سرزمین فلسطین کی آزادی کا جذبہ روز بروز پروان چڑھتا جارہا ہے ۔درحقیقت اسپین کے سابق وزیر اعظم ازنار کوبھی اسرائیل کے باقی بچ جانے کی کوئی امید نہيں ہے کیونکہ وہ یہی سمجھتے ہيں کہ اسرائیل ابھی بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے اوریہ ایسی حالت میں ہے کہ اسرائیل کی پہلی نسل پوری طرح ختم ہوچکی ہے اوراس کی دوسری نسل اپنی حیات کے آخری دن گذار رہی ہے ۔اسٹریٹجک اعتبار سے اسرائیل کا زوال مشرق وسطی میں مغرب کے اقتدار اوراثرورسوخ کا بھی خاتمہ ہے ۔تقریبا پانچ سال قبل اردن کے ایک ممتاز دانشور ڈاکٹر عبدالمہدی عبداللہ نے ہفت روزہ جریدے << مریا >> ميں لکھا کہ مغرب اورخاص طورپرامریکہ نے اسرائیل کو غاصبانہ وجود بخشا اوراسرائیل آج علاقے میں ایک فوجی چھاؤنی کی حیثيت سے ان کے مفادات کی نگرانی اورتحفظ کررہا ہے ۔ایک اسٹریٹجک تجزیہ کے تحت یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ مغرب، اسرائیل کومشرق وسطی کے علاقے میں ایک سوپر اسٹریٹجک پوزیشن کے طورپردیکھتا تھا اسی لئے اسرائیل کی شکست بھی مغرب کے لئے ایک سوپر اسٹریٹجک فیلیر یا ناکامی شمار ہوگی ۔اسی لئے امریکی حکام پوری تشویش کے عالم میں اسرائیل اورفلسطین کے معاملات کو اپنے حساب سے دیکھ ر ہے ہيں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام اسرائیلی عہدیداروں پرمسلسل یہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے پرہیزکریں جن سے صورت حال اور زیادہ بدتر ہوجائے ۔اس درمیان اسرائیل کی دوخفیہ تنظیموں شاباک اور موساد نے مشترکہ طورپرجو ایک رپورٹ جاری کی ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ تل ابیب شدید بحران کا شکار ہے ۔ اس رپورٹ میں آیا ہے کہ ایک ایسے وقت جب داخلی طورپراسرائیل کسی بھی لحاظ سے ایک نئي جنگ کے لئے تیار نہيں ہے شمالی سرحدوں پرحزب اللہ کے طاقتور ہونے کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اورغرب اردن وغزہ میں فلسطینیوں کی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہيں اورآج غزہ کے عوام اس محاصرے کوتوڑنے کے لئے ہر دور سے زیادہ پرعزم نظر آرہے ہيں ۔اس رپورٹ میں آیا ہے کہ اگرمذاکرات کا عمل معطل رہتا ہے تو اردن اورمصرجیسے اسرائیل کے ہمسایہ ممالک بھی علاقے کے اس محاذ میں شامل ہوجائيں گے جو اسرائیل مخالف ہيں اوراس صورت میں اسرائیل کی شمالی اورجنوبی دونوں ہی سرحدیں غیرمحفوظ ہوجائيں گی ۔ دوسری طرف اسرائیل کے سامنے ایک اورمشکل یہ ہے کہ وہ اب اس سے زیادہ غرب اردن اورغزہ میں فلسطینیوں پردباؤ نہيں ڈال سکتا کیونکہ اس کے ظالمانہ اقدامات پراس وقت پوری دنیا سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے ۔ دوسری طرف فلسطینیوں نے اب تک اسرائیل کے تمام تردباؤ کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ہے اوریہ صورت حال صہیونی حکام کویہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی کا کوئی نتیجہ نہيں نکلتا چنانچہ اب اس کے علاوہ اورکوئی چارہ نہيں کہ وہ اپنی اس پالیسی کوترک کردے ۔شاید اسی لئے صہیونی حکومت نے غزہ کے محاصرے کی شدت کوکم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ ہرگزنہيں کہ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ ختم کردیا ہے کیونکہ غزہ کا محاصرہ اسی وقت ختم ہوگا جب وہ سمندری محاصرہ بھی ختم کردے کیونکہ زمینی اعتبارسے غزہ کا محاصرہ توہمیشہ رہتا ہے خواہ اس کی گذرگاہیں کھلی ہوں یا بند ہوں، زمینی طورپرغزہ کا محاصرہ تواسی وقت ختم ہوگا جب اسرائیل کا وجود ختم ہوجائے گا