Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

اسرائیل کی درندگی

palestine_foundation_pakistan_israel-killer
سفیر احمد صدیقی
1948ء میں بیلفور ڈکلریشن کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا،جسکی سرپرستی برطانیہ اور امریکہ کر رہے تھے۔ظلم اور ناانصافی کی انتہا ہو گئی،جب فلسطینیوں کو اْنکے اپنے ہی وطن سے بے دخل کر کے اور اْنکی سرزمین پر روس اور یورپ سے یہودیوں کو ائیر لفٹ کر کے فلسطین کی سرزمین پر ایک ایسا کانٹا بویا گیا،جس کا نام اسرائیل ہے۔فلسطینی اِس ناانصافی پر آوازیں اْٹھاتے رہے اور بے بسی کے عالم میں اسرائیلیوں سے گتھم گتھا بھی ہوئے،لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوج کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا۔یاسر عرفات نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی بنیاد ڈالی،جو فلسطینیوں کے حقوق کیلئے باضابطہ جنگ کرتی رہی،ظاہر ہے جب کسی قوم پر ظلم اور استبداد کا سلسلہ جاری رکھا جائیگا تو Resistance Group قائم ہونگے۔حماس اور حزب الله بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
1967ء عرب۔ اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے اپنی ائیر فورس کی برتری کی وجہ سے ایک ہی دھاوے میں مصر کی ائیر فورس کو زمین ہی پر ناکارہ بنا دیا تھا اور جدید ٹینکوں کی عددی برتری سے اْسنے صحراء سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ جما لیا تھا۔یعنی اْس نے بظاہر تن تنہا مصر،اْردن اور شام کو شکست سے دوچار کر دیا تھا۔اسرائیلی فوج نہر سوئیز کے مشرقی کنارے پر ایک سو میل پر قابض ہو گئی تھی اور نہر سوئیز کو ہر طرح کی آمد و رفت کیلئے ناکارہ بنا دیا تھا۔نہر سوئیز تو 1956ء کے بعد مصر کا واحد ذریعہ آمدن تھا۔دنیائے عرب کیلئے یہ ایک بہت المناک اور شرمناک واقعہ تھا۔جمال عبدالناصر کا فخر ریزہ ریزہ ہو گیا۔شام اور اْردن بھی سر اْٹھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ وہ Shell-Shock تھے کہ اْن کے ساتھ یہ کیا ہو گیا۔مصر دل ہی دل میں کڑھتا رہا اور اس نے اسرائیل سے اِس بے عزتی کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔بالا آخر اکتوبر 1973ء میں مصر نے اسرائیل پر بھرپور حملہ کر کے بارلیو لائین عبور کر لی اور اسرائیلی فوجیوں کو صحراء سینا کی طرف پسپا کر دیاملیکن پھر امریکہ بیچ میں کود گیا اور کسینجر نے انوار السادات کو کھلے الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر اپنی یلغار نہیں روکو گے تو ہم قاہرہ پر ایٹم بم گرادینگے۔انواالسادات نے اپنی قومی اسمبلی کا اجلاس بلوایا اور شرکاء کو روتے ہوئے بتایا کہ وہ اسرائیل سے تو لڑ سکتے ہیں،لیکن امریکہ سے نہیں۔پھر روس کے توسط سے سیز فائر ہوا۔ اْسکے بعد1979ء میں امریکیوں نے انوارالسادات کو بہلا پھسلا کر کیمپ ڈیوڈ میں مصر کو ۶۰۰ ملین ڈالر ماہانہ اقتصادی مدد دینے کا وعدہ کر کے اسرائیل سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے صلح کرا دی اور اس طرح دنیائے عرب کی بہترین فوج،جس سے اسرائیل خائف تھا اْسے بے اثر اور غیر جانبدار بنا دیا۔ کیمپ ڈیوڈ کے بعد دنیائے عرب بے دست و پا ہو گئی۔مصری افواج نے اسرائیل سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیا،پھر کیا رہ گیا۔شام اور اردن تو بہت چھوٹے چھوٹے ملک ہیں،وہ اسرائیل سے کس طرح نبرد آزما ہوتے،بالا آخر اْردن کو بھی اسرائیل سے جنگ نہیں کرنے پر آمادہ کر لیا گیا۔برطانیہ اور امریکہ نے شام کو تنہا کر دیا۔سعودی عرب کے بارے میں بس یہ کہنا کافی ہو گا کہ وہ مصلحت کا شکار ہے۔ اْسکی فوج اِس قابل نہیں کہ وہ اسرائیلی فوج سے لڑ سکے اور امریکہ نے اْسے خاموش تماشائی بنا رہنے کی ہدایت دی ہے۔
1981ء میں جب اسرائیلیوں نے اوریسک میں واقع عراق کی ایٹمی تنصیبات تہس نہس کرنے کیلئے اپنے F-16s بھیجے تو وہ سعودی عرب کی سرزمین کے اوپر سے ہی اْڑ کر عراق پہنچے،لیکن سعودی ائیر فورس نے اْنہیں Intercept نہیں کیا۔مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت کو دیکھکر خطے میں اسرائیل اپنی من مانی نہیں کریگا تو اور کیا کریگا۔سعودی عرب کو اْسنے تڑی دی ہے کہ وہ صرف چھ گھنٹے میں وہ سعودی عرب پر قابض ہو جائیگا۔امریکہ اسرائیل کو ہر سال ایک ٹریلین ڈالر کی امداد دیتا ہے۔ جدید جٹ فائیٹرز اسرائیل کے اشارے پر تل ابیب پہنچ جاتے ہیں۔سوچنے کی بات ہے جب دو بڑے عرب ممالک یعنی مصر اور سعودی عرب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو اسرائیل اپنی من مانی ہی کریگا اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں پر ظلم اور استبداد کا سلسلہ لازمی طور پر جاری رکھے گا۔
پچھلے چار سالوں سے یعنی جب سے حماس نے الیکشن جیت کر غزہ کا نظم و نسق سنبھالا ہے فلسطینیوں کا ناطقہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔غزہ کی پٹی کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔اسرائیل کی مرضی کے خلاف نہ وہاں کوئی چیز (بشمول اشیائے خورد و نوش اور ادویات) آ سکتی ہے اور نہ باہر جا سکتی ہے۔ اسرائیلیوں کا کہنا یہ ہے کہ سپلائی کے بہانے وہاں اسلحہ پہنچایا جاتا ہے اور اگر غزہ کی پٹی میں کھلی چھٹی دے دی جائے تو وہ ایک ایرانی بندرگاہ بن جائیگی۔اِس پس منظر میں 31 مئی کو فری غزہ موومنٹ کے ۶۰۰ کارکنان ”ماوی مار مارا“نامی جہاز پر سوار ہو کر غزہ کے محصورین کیلئے امدادی سامان جسمیں دوائیں،اشیائے خورد و نوش،کپڑے،کھلونے،سکول کی کتابیں اور عمارتی ساز و سامان لیکر قبرص سے غزہ کی پٹی جا رہا تھا کہ صبح کے تڑکے اسرائیلی کمانڈوز جو کالے کپڑے میں ملبوس تھے،ہیلی کاپڑوں کے ذریعے جہاز میں اْترے اور سوتے ہوئے امن کے سفیروں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔جس سے ۹ ترکی کے باشندے شہید ہو گئے۔ اور ۲۰ کے قریب مسافر بری طرح زخمی ہو گئے۔
اسرائیل کی اِس بربریت پر اپنے ردعمل اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے۔ترکی کے وزیر خارجہ رحمت داوو تو گلو نے اپنے ردعمل کا اظہار کچھ اِسطرح اِن الفاظ میں کیا ہے۔” یہ قتل ایک ملک اسرائیل نے کیا ہے،جسکا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ہے“اور حکومت ترکی نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ ” اسرائیل کو اِس درندگی کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا“ گریٹا برلن جو فری غزہ موومنٹ کی ترجمان ہیں جس نے امدادی فلوٹیلا غزہ بھیجنے کا انتظام کیا تھا کہا کہ کیا اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ فلسطینیوں پر ہر قسم کے مظالم ڈھا سکتے ہیں لہٰذا وہ کسی پر بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ اسرائیلیوں کا قتل کا ریکارڈ انتہائی بہیمانہ ہے۔اب تک اْنہوں نے اقوام متحدہ کے امن مشن کے کارکنان،مغربی ممالک کے امدادی جماعت کے ممبران اور متعدد جرنلسٹ کو بلا اشتعال قتل کر دیا ہے۔
2003ء میں اسرائیلی بلڈوزر نے ایک امریکی خاتون طالبہ جسکا نام راکیل کوری بتایا جاتا ہے اْس وقت روند ڈالا جب وہ صیہونی جبر و استبداد کے خلاف آواز اْٹھا رہی تھی۔راکیل کوری اْس وقت جان سے ہاتھ دھو بیٹھی جب وہ انسانی ڈھال بن کر ایک فلسطینی کی جان بچانے کی خاطر اسرائیلی بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہو گئی،لیکن بلڈوزر ڈرائیور کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ اْس نے کوری کو مٹی کے تودے کے ساتھ ہی اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ کر اوپر اْٹھا لیا اور پھر زمین پر پٹخ دیا پھر اْس ننھی سی جان پر بلڈوزر دوڑا دیا۔راکیل ایک امریکی جوان سال لڑکی تھی،لیکن امریکی حکومت نے کوئی شور و غوغا کیا اور نہ ہی اسرائیل سے لڑکی کو بے دردی سے قتل کرنے کا ہرجانہ طلب کیا۔کیوں؟ اسلئے کہ امریکہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ایک امریکی پولیس مین کے طور پر پال پوس رہا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اسرائیل کے حالیہ وحشیانہ رویئے سے اقوام عالم میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ایتھینز جو بظاہر ترکی کا دشمن ہے وہاں بھی ۹ ترکی باشندے کے قتل پر وسیع پیمانے پر احتجاج کیا گیا ہے اور یونان میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کا پیمانہ اور لوگوں میں غم و غصے کی لہر کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل تھا کہ یونان اور ترکی میں کبھی اخوت اور بھائی چارگی کا رشتہ قائم ہو سکتا ہے۔ قارئین آپکو یاد ہو گا کہ 1974ء میں قبرص کے معاملے میں دونوں ملکوں میں خوفناک جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔
غزہ کے محاصرے سے متعلق غیر جانبدار تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ “Gaza is a humanitarian Disaster” اسلئے کہ تل ابیب غزہ کے 15 لاکھ باشندوں کیلئے صرف 15000 ٹن اشیائے خورد و نوش اور دیگر اشیاء ماہانہ غزہ کی پٹی پر پہنچنے کی اجازت دیتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یہ غزہ کے باشندوں کی ضروریات کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔پھر ظاہر ہے بھوک،بیماری،احساس محرومی لاچارگی غزہ کے لوگوں کا مقدر بن گیا ہے۔بچے دودھ کی کمیابی کی وجہ سے لاغر اور ادویات کی غیر فراہمی سے جلد ہی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں دائمی امن اور سکون اْسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کو اِس بات پر مجبور کریں کہ دو ریاستوں کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جائے۔لیکن مغربی ممالک کی ضد ہے کہ حماس عسکریت پسندی کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کرنے کا اعلان کرے۔دراصل اسرائیل کبھی نہیں چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کا بھی کوئی ملک قائم ہو۔فلسطینی یہ چاہتے ہیں کہ بیت المقدس اْنکے ملک کا دارالحکومت قرار دیا جائے۔ لیکن افسوس عملی طور پر اسرائیل ایسی کسی تجویز کو قبول نہیں کریگا۔
میں ہمیشہ ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتا ہوں،جب میں سوچتا ہوں کہ سعودی عرب جسے الله نے ہر قسم کی دولت سے نوازا ہے،غزہ میں فلسطینیوں کی حالت زار دیکھ کر اْسکا دل بھی نہیں پسیجتا ہے۔مصر نے رفاہ کراسنگ پر قدغن لگا دی،تاکہ فلسطین کے مسلمان اشیائے خورد و نوش نہ پہنچنے کی صورت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیں۔پاکستان بھی خاموش تماشائی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan