“اسرائیل نہیں چاہتا کہ موجودہ عوامی انقلاب کی صورت میں صدر حسنی مبارک کو ہٹایا جائے یا ان کے نظام کو تبدیل کیا جائے. مصرمیں صدر مبارک ہٹاٶ تحریک میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان شدید اختلافات پائے جا رہے ہیں. اسرائیل کو خدشہ ہے کہ مصرمیں صدرحسنی مبارک کے نظام کے خاتمے کا انجام ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے”. ان خیالات کا اظہار ایک امریکی دانشور محکمہ خارجہ کے مشیر ڈیویڈ میلر نے اپنے ایک تازہ مضمون میں کیا ہے. ان کا یہ مضمون حال ہی میں مختلف امریکی اخبارات میں شائع کیا گیا. فاضل امریکی تجزیہ نگارکا کہنا ہے کہ مصر میں جاری عوامی انقلاب کی تحریک کواسرائیل سخت تشویش کی نظرسے دیکھتا ہے. مصر میں آنے والی ممکنہ تبدیلی یا حسنی مبارک کے ہٹنے کو تل ابیب تین حوالوں سے دیکھتا ہے. اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ صدرمبارک کے منظر سے ہٹنے کے بعد یہ امکان ہے قاہرہ ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست بن جائے گا. دوسرا تاثر یہ ہے کہ مصرمیں تبدیلی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان ہوئے امن معاہدے ٹوٹنے کا اندیشہ ہے اور تیسرا یہ تاثر بھی عام ہو رہا ہے کہ مصر اسرائیل کےخلاف ایک نئی جنگ بھی چھیڑ سکتا ہے. امریکی تجزیہ نگارکا کہنا ہے کہ مصرکے موجودہ بحرانی حالات میں امریکی حکام اسرائیل سے رابطے میں ہیں. واشنگٹن اسرائیل کومسلسل یقین دہانی کرا رہا ہے کہ قاہرہ میں سیاسی تبدیلی سے اسرائیل کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا کیونکہ امریکا صہیونی ریاست کو درپیش تمام مشکلات کو دور کرنے میں اس کی مدد کرے گا. امریکی تجزیہ نگار ڈیوڈ میلر کا کہنا ہے کہ مصرکے بارے میں امریکی اور اسرائیلی خارجہ پالیسیوں میں سخت تضاد پایا جاتا ہے. اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ امریکا مصرمیں صدرحسنی مبارک کے نظام کی حمایت کرے جبکہ امریکا کا کہنا ہے کہ وہ مصرمیں جمہوریت کے حق میں ہے اور صدرمبارک کو جلد ازجلد ہٹانے کے لیے عوامی تحریک میں عوام کے ساتھ ہے.