اسرائیلی وزارت دفاع نے اکتیس مئی کو فریڈم فلوٹیلا پرعالمی سمندر میں اسرائیلی فوج کے حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ایک یہودی خاتون کا علاج کرانے سے انکار کر دیا ہے. خیال رہے کہ قابض اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے اکتیس مئی کو ترکی سے آنے والے امدادی جہازوں پر حملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں 9 ترک رضاکار شہید اور درجنوں شہید ہو گئے تھے. اسرائیل نے جہازوں میں سوار تمام افراد کو یرغمال بنا کر امدادی سامان لوٹ لیا تھا. اسرائیل کی اس جارحیت کے خلاف دنیا بھرمیں احتجاجی مظاہرے کیے گیے. بیت المقدس میں قلندیا کے مقام پر ہونے والےمظاہرے میں اسرائیلی شہریوں نے بھی شرکت. اسرائیلی فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے شیل پھینکے جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے، آنسو گیس کا ایک شیل خاتون کی آنکھ پر لگا تھا جس سے اس کی آنکھ ضائع ہو گئی تھی. عبرانی اخبار”ہارٹز” نے اپنی بدھ کی اشاعت میں بتایا ہے کہ “امیلی ھنوحوبچ” امریکی نژاد اسرائیلی یہودی خاتون شہری ہیں. انہوں نے 31 مئی کو عالمی سمندر میں فریڈم فلوٹیلا پر صہیونی فوج کے حملے کے خلاف بیت المقدس میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں حصہ لیا تھا اور اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے امدادی جہازوں پر حملے کی شدید مذمت کی تھی. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ھنوبچ کے اہل خانہ اور والدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے احتجاجی مظاہرے کو بزور کچلنے کے لیے ان پر دانستہ طور پر گولیاں چلائیں. ان کی بیٹی پر بھی ایک فوجی نے نشانہ بنا کر آنسو گیس کا ایک شیل فائر کیا، جو اس کی آنکھ میں لگا اور اس کی آنکھ ضائع ہو گئی. ھنوبچ کے والد کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیٹی کے علاج کے لیے وزارت دفاع سے 14 ہزار شیکل کی رقم طلب کی تاہم انہیں بتایا گیا کہ یہ خاتون اسرائیل مخالف مظاہرے میں زخمی ہوئی ہے حکومت اس کے علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرے گی.