اسرائیلی سیاسی اور عسکری قیادت نے امریکا اور یورپ کی جانب سے مصری حکومت سےمظاہروں کو بزور طاقت نہ کچلنے کی اپیل پر حیرت ظاہر کرتے ہوئے مبارک سے عوام سے بزور قوت نمٹنے کا مطالبہ کیا اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انقلاب کامیاب ہونے کی صورت میں اخوان المسلمون حکومت میں آجائے گی۔ اسرائیلی رہنماؤں کے مطابق صدر حسنی مبارک کے مستعفی ہونے کی صورت میں مصری فوج کو بھی اپنی تنظیم نو کرنا پڑے گی۔ اسرائیلی فوج کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اھارون زیوی فرکاش نے اسرائیلی ریڈیو کو بتایا کہ ’’مجھے امریکا اور یورپ کی جانب سے مصر میں جمہوریت کا مطالبہ سمجھ نہیں آیا‘‘ انہوں نے کہا ’’مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ یورپ کو اس بات سے آگاہی کیوں نہیں کہ موجود سنی نظام (مصری صدر حسنی مبارک کا نظام) کشیدگی کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسری جانب شیعہ عناصر اسلحے کے زور پر معاملات حل کرنا چاہتے ہیں‘‘ فرکاش نے کہا کہ مصر میں فوجی حکومت کے بارے میں کچھ کہنا ہے قبل از وقت ہو گا۔ اس بات کا امکان ہے کہ فوج اقتدار پر قابض ہوکر ملک میں امن قائم کرے۔ اسرائیلی اخبار ’’ھارٹز‘‘ نے اپنی تازہ اشاعت میں کہا ہے کہ ’’اسرائیل کو ڈیڑھ سال قبل قاھرہ یونیورسٹی میں امریکی صدر باراک حسین اوباما کی اعلان کردہ مشرق وسطی کی پالیسی پر شک کا اظہار ہے کیونکہ پچھلے دو دن میں واشنگٹن کی جانب سے جاری بیانات اس پالیسی کے مخالف ہیں‘‘ اخبار مزید لکھتا ہے کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ مصر کی مذہبی تنظیم اخوان المسلمون ان مظاہروں کو استعمال کرکے مصری حکومت پر قابض ہوجائے۔ مزید برآں اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے عہدے دار مصر میں حکومت کی تبدیلی کسی صورت خواہش مند نہیں ہونگے۔ حتی کے اسرائیل کے ملٹری انٹیلی جنس چیف اویو کوھانی کنیسٹ کی سکیورٹی اور امور خارجہ کی کمیٹی کو کہ چکے ہیں کہ مصر میں حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سب کے برعکس اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں سال 2011 کو عرب ممالک میں انقلاب کا سال قرار دے رہی ہیں تاہم انہیں کسی عوامی احتجاجی مظاہروں کی توقع نہیں۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ حسنی مبارک کا نظام معطل ہونے کی صورت میں مصری فوج کو اپنی تنظیم نو کرنا ہوگی۔ اخبار کے مطابق حالیہ دہائیوں میں مصر میں پر امن حالات کی وجہ سے اس کی فوج میں بڑے پیمانے پر کمی کی گئی ہے۔ فوجیوں کی ریٹائرمنٹ کی عمروں میں کمی کی گئی اور فوجی وسائل کا رخ معاشی اور معاشرتی ترقی کی جانب موڑ دیا گیا تھا۔ اخبار نے مزید واضح کیا کہ دوسری لبنان جنگ ختم ہونے کے بعد سے مصری فوج نے جنگی مشقیں بھی ختم کر رکھی ہیں، ان جنگی مشقوں کو شام کے ساتھ جنگ کے احتمال میں انتہائی محدود کر دیا گیا تھا۔ تاہم کسی کو یہ احتمال نہیں ہے کہ مصری فوج صحرائے سینا میں داخل ہو جائے گی۔