اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے ملحقہ اور فلسطینیوں کے اکثریتی علاقے “سلوان” میں فلسطینیوں کے ملکیتی 110 مکانات کوغیرقانونی قرار دے کر انہیں منہدم کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کےذرائع کے مطابق اسرائیلی حکومت کے زیرانتظام “اسٹیٹ کنٹرولی ” محکمہ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں سلوان میں فلسطینیوں کے 110 مکانات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی فوری مسماری کا مطالبہ کیا ہے. میڈیا کو جاری کی گئی سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں نے گذشتہ چالیس سال کے دوران سلوان میں بڑے پیمانے پرغیرقانونی تعمیرات جاری رکھی ہوئی ہیں. رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے سنہ 1970ء میں مقبوضہ بیت المقدس میں تعمیرات کے لیے ایک تعمیراتی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا. کسی بھی مکان کی تعمیرکے لیے اسرائیلی اتھارٹی کی طرف سے اجازت اور پرمٹ کا حصول ضروری قرار دیا گیا تھا. اس علاقے میں یہودیوں نے جو تعمیرات کیں وہ حکومت کی اجازت سے کی گئیں جبکہ فلسطینی شہریوں نے تمام تعمیرات غیرقانونی طور پر مکمل کی ہیں، جنہیں جاری رکھنےکی اجازت نہیں دی جا سکتی. اب تک جو تعمیرات کی گئی ہیں ان کے فوری مسماری کیے جانے کی ضرورت ہے. دوسری جانب ذرائع کے مطابق اسرائیل کی القدس کی بلدیہ نے”اسٹیٹ کنٹرولر” کی جانب سے جاری رپورٹ کے بعد فلسطینیوں کے ایک سو سے زائد مکانات کو گرانے کے منصوبے پر کام غور شروع کر دیا ہے. ذرائع کے مطابق صہیونی بلدیہ ایک حکمت عملی کے تحت تھوڑے تھوڑے کر کے مکانات کو مسمار کرے گی،تاہم ایک ساتھ تمام مکانات کو خالی کراکے انہیں گرایا جا سکتا ہے.یہ امکان بھی موجود ہے کہ مکانات کو مسمار نہ کیا جائے اور انہیں فلسطینیوں سے لے کر اسرائیلی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے یا انہیں یہودیوں کو فروخت کر دیا جائے.