محاصرہ مخالف قومی کمیٹی کے سربراہ جمال خضری نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل نے فلسطینی تاجروں کے سامان سے لدے سیکڑوں کنٹینرز غزہ کی سرحد پر روک رکھے ہیں۔ قانونی طور پر جائز سامان سے بھرے کنٹینرز کی غزہ داخلے پر پابندی سے غزہ محاصرے میں نرمی کے اسرائیلی دعوؤں کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ خضری نے گزشتہ روز ذرائع ابلاغ کے لیے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ ان کنٹینرز میں ایسا سامان اور خام مال موجود ہے جسے فلسطینی تاجروں نے قانونی طور پر منگوایا ہے، مگر پھر بھی اسرائیلی انتظامیہ اس سامان کو غزہ داخل ہونے سے روک رہی ہے، مالکان کو ایسے بھاری جرمانے کی ادائیگی پر مجبور کیا جا رہا ہے جس سے ان کو زبردست نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ خضری نے کہا چار سال سے روکے گئے یہ کنٹینرز فلسطینی تاجروں اور کاروباری شخصیات کے ہیں، انہوں نے کہا کہ خام مال کو غزہ کے باہر روکنے کی وجہ سے سیکڑوں فیکٹریاں اپنے ورکرز کو کام سے فارغ کر دیں گی اور ہزاروں مزدور بے کار ہو جائیں گے۔ اس طرح بے روزگاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ اس موقع پر خضری نے غزہ محاصرے کے خاتمے کے پیرامیٹرز کا اپنا موقف دوہرایا اور کہا کہ غزہ کی تمام تجارتی راہداریاں کھولی جائیں، خام مال اور تعمیراتی سامان سمیت ہر قسم کا سامان غزہ آنے دیا جائے۔ دنیا سے رابطے کے لیے سمندری رہ گزر کھولی جائے اور غزہ اور مغربی کنارے کے مابین افراد کی نقل وحرکت کے لیے پر امن رستہ بھی یقینی بنایا جائے۔ جمال خضری نے کہا کہ محاصرہ ختم کرنے کے صہیونی اعلان محض نمائشی بیان تھا، محاصرے کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانوں کو حل کرنے کی طرف عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ محاصرہ مخالف کمیٹی کے سربراہ نے یورپی امور خارجہ کی کمیٹی کی نمائندہ کیتھرین اشٹون، جو آج غزہ کی پٹی پہنچ رہی ہیں، سے غزہ کی کراسنگز مکمل طور پر کھولنے کے بیان کا مطالبہ کیا۔