قابض اسرائیلی حکام کی طرف سے رواں سال کے گذشتہ تین ماہ کے دوران بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں کے مکانات کوغیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی مسماری کے لیے 850 سے زائد نوٹس جاری کیے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے” فاؤنڈیشن برائے سماجی بہبود وترقی القدس” کے رکن معاذ زعتری نے منگل کے روزعربی اخبار”فلسطین” کو انٹرویو میں کہا کہ گذشتہ دس سال کے دوران قابض صہیونی بلدیہ اور اسرائیلی حکومت نےفلسطینیوں کے 10 ہزار سے زائد مکانات کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں مسمار کیا گیا۔
معاذ زعتری کا کہنا تھا کہ صہیونی بلدیہ نے سال 2009ء میں بیت المقدس میں 110 مکانات مسمار کیے، جن میں سے 35 مکانات کی مسماری ان کے مالکان سے کرائی گئی، انہوں نے کہا کہ شہریوں سے اپنے ہاتھوں اپنے مکانات کی مسماری کے احکامات القدس کی عرب آبادی پرخوف اور دہشت کی فضا پیدا کرکے انہیں وہاں سے رضاکارانہ طور پرنکل جانے پر مجبور کرنا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے رکن کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے گذشتہ برس بیت المقدس میں مکانات مسماری کے لیے 2200 مکانات کی مسماری کے نوٹس جاری کیے۔ بیت المقدس میں یہودی آبادی کی اکثریت ثابت کرنے کے لیے صہیونی حکومت کی جانب سے کئی دیگر منصوبوں پربھی کام جاری رکھاگیا جن میں کئی مکانات پر یہودی عبادت گاہوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔
معاذ زعتری کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے جنوب میں “بستان” کا علاقہ خاص طور سےیہودیت کےنشانے پر ہے، صہیونیوں کی منصوبوں کی وجہ سے بستان کے 1500 افراد کا مستقبل خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔