اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے پولٹ بیورو کے رکن عزت رشق نے واضح کیا ہے کہ حماس کے وفود کے مختلف ممالک کے دوروں کا مقصد مؤقف واضح کرنا اور ان شبہات کو دور کرنا تھا جو حماس کے خلاف پھیلائے جارہے ہیں- انہوں نے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل سے قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ثالثی ملک جرمنی سے اتفاق کیا گیا تھا کہ جن 450 فلسطینی اسیران کو اسرائیل رہا کرے گا ان میں 270 ایسے اسیران ہیں جنہیں اسرائیل نے عمر قید کی سزائیں سنائی ہوئی ہیں- رہا کیے جانے والے اسیران میں سے مغربی کنارے کے صرف 80 سے 86 اسیران کو مغربی کنارا بدر کر کے غزہ بھیجا جائے گا- حماس کی ایک اور شرط احمد سعدات، مروان برغوثی اور حماس کے عباس السید اور حسن سلامہ جیسے رہنمائوں کی رہائی تھی- اسرائیل ان رہنمائوں کو رہا کرنے سے انکار کرتا ہے- عزت رشق نے کہا کہ حماس کی پیشکش جرمنی نے اسرائیل کو پیش کی- اسرائیلی سیکیورٹی کونسل نے اپنے اجلاس میں اس پیشکش پر غور کیا ہمیں جرمنی کے ذریعے جو جواب ملا اس میں مغربی کنارا بدر کر کے غزہ بھیجے جانے والے اسیران کی تعداد 86 سے بڑھا کر 209 کردی گئی تھیں- اس کا مطلب ہے کہ مغربی کنارے کے تمام اسیران کو غزہ بھیجا جائے گا جبکہ حماس کے رہنمائوں کو رہا کرنے کی شرط بھی مسترد کردی گئی- اسرائیل نے یہ مؤقف اختیار کر کے ثالثی ملک جرمنی کو پریشانی میں ڈال دیا- اس کا نتیجہ جرمنی اور اسرائیلی نمائندوں کے درمیان طویل ملاقاتیں اور مذاکرات تھا-