اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے غزہ اور مصر کی سرحد پر آہنی باڑ لگانے کے اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس باڑ کی تعمیر امریکا نے سرمایہ فراہم کیا ہے جبکہ اس کے ایجنٹ غزہ کی ناکہ بندی کو سخت کر کے گنجان آباد شہر کوموت کے منہ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ہفتے کے روز غزہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے کہا کہ غزہ اور مصر کے درمیان آہنی باڑ کی لگانے کا فیصلہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی فلسطین دشمنی پر مبنی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ اسرائیل اور امریکا مل کرغزہ کے شہریوں کا عزم آزادی ختم کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ غزہ کی سرحد پر لوہے کی باڑ لگانے کا ظالمانہ فیصلہ کرکے امریکا اور اسرائیل نے خود ہی یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی غزہ کو گلوبلائز کرنے اور شہر کوبیرونی طاقتوں کی آماجگاہ بنانے کی حکمت عملی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ امریکا پر واضح ہو گیا ہے کہ غزہ کے غیورعوام اپنی سرزمین کودوسروں کو دینے اور استعمال کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے۔ ایک سوال کے جواب میں فوزی برھوم نے کہا کہ اس وقت جبکہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کو مزید سخت کرنے کے لیے آہنی دیواروں کا سہارا لیا جاتا ہے عالم اسلام اور عرب ممالک کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ اسلامی دنیا کو غزہ کو گھیرنے کی امریکی صہیونی منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم کوششیں کرناہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کے ثبوت دنیا کے سامنے آنے کے بعد اسرائیل اوراس کے حواریوں کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کرنے میں خاموشی کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ ایک سوال پر ترجمان نے کہا کہ اسرائیل مصر اور غزہ دونوں کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے، اسرائیلی سیاسی قیادت کے حالیہ بیانات سے صہیونی کی عرب اور فلسطین دشمنی مزید واضح ہوجاتی ہے۔ انہوں نے غزہ کی سرحد پر آہنی دیوار لگانے کے فیصلے کی مذمت کی اور اسے فوری طور روکنےکا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب فلسطینی صدرمحمود عباس کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کے لیے آہنی دیوار کی تعمیر پر فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے کی گئی حمایت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ محمود عباس نے آہنی باڑ لگانے کی حمایت کرکے اپنے ہی عوام کی معاشی ناکہ بندی مزید سخت کرنے کی حمایت کی ہے، جس کے بعد یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ان کے تمام تراقدامات میں فلسطینی عوام کے بجائے اسرائیل اور امریکا کی رضامندی کو ترجیح دی جاتی ہے۔