غزہ میں قائم فلسطینی حکومت نے رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کو بے سود قرار دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے مذاکرات کی شدید مخالفت کی ہے۔ منگل کے روز حکومت کے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کے از سرنو آغاز اور فلسطین میں اسلامی آثار قدیمہ کی یہودیوں کی ملکیت قرار دینے کی شدید مذمت کی گئی۔ اجلاس کے بعد حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل فلسطین میں ریاستی دہشت گردی کا مسلسل مرتکب ہو رہا ہے۔ دبئی میں القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمود مبحوح کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کرنے اور اسرائٓیلی وزیراعظم کی جانب سے حرم ابراھیمی اور مسجد بلال بن رباح کو یہودیوں کا تاریخی ورثہ قرار دینے کے بعد اسرائیل سے مذاکرات کا کوئٓی جواز باقی نہیں رہتا۔ فلسطینی اتھارٹی کواسرائیل سے نام نہاد مذاکرات شروع کرنے سے قبل فلسطین میں ریاستی دہشت گردی کے خاتمے، غزہ کی معاشی ناکہ بندی اٹھانے، مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی آباد کاری پر پابندی اور تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کے ساتھ موجودہ حالات میں مذاکرات پر اتفاق اس کے مظالم کو تسلیم کرنے اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی نفی کے مترادف ہے، فلسطینی حکومت ایسے مذاکرات کو تسلیم نہیں کرتی اور ان کی مسلسل مخالفت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بیان میں یورپ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیلی جنگی جرائم کی پردہ پوشی کےبجائے قابض صہیونی ریاست کے بارے میں سخت موقف اختیار کریں۔ فلسطینی حکومت نے حماس کے کمانڈر محمود مبحوح کے قتل میں ملوث موساد کے ایجنٹوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اب چونکہ دبئی پولیس کی تحقیقات کی روشنی میں انٹرپول نے بھی موساد کے ایجنٹوں کو مطلوب قرار دیا ہے۔ ان تحقیقات کے بعد عالمی تحقیقاتی اداروں کو موساد کے ایجنٹوں کے خلاف کارروائی میں پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ اسرائیلی مجرموں اور قاتل گینگ کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔