Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

اسرائیل جنگ ہار گیا ہے

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
غزہ پر حالیہ جارحیت جو مسلسل دو سال جاری رہی اور اس کے نتیجہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی گئی اور بڑے پیمانہ پر غزہ کو تباہی کی طرف دھکیلا گیا، ان سب حالات میں آخر کار مورخہ 9اکتوبر سنہ 2025کو جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔لیکن اس پورے عرصہ میں ایک ایسا طبقہ بھی منظر عام پر آیا کہ جس نے مسلسل بیانیہ کی جنگ میں فلسطین اور اس کی عوام اور مزاحمت کو ایک طرف قصور وار ٹہرانے کی کوشش کی تو دوسری جانب اسرائیلی ظلم کی پردہ پوشی کرتے ہوئے غزہ کو شکست خوردہ دکھانے کی ناکام کوشش کی اور پروپیگنڈا کیا کہ سب کچھ تباہ ہو گیا ہزاروں لوگ مارے گئے۔ حقیقت میں تو قتل عام ہوا، نسل کشی ہوئی لیکن اس مخصوص ٹولہ نے اس نسل کشی کی مذمت نہیں کی بلکہ اس نقصان کو بڑھا چڑھا کر فلسطینیوں کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی ۔بہر حال اب جنگ بندی ہو چکی ہے اور نہ جانے یہ معاہدہ غاصب اسرائیل کتنے دن تک عمل کرے گا۔ لیکن اس تمام تر صورتحال میں ایک بات ہے کہ اب دنیا جاننا چاہتی ہے کہ آخر نقصان کس کا ہو اہے ؟ جنگ کون جیت گیا اور کون ہار گیا ؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو تو دونوں فریقوں کے نقصان کا موازنہ کیا جائے گا۔ یعنی پہلے غز ہ کی بات کرتےہیں کہ غزہ مکمل تباہ ہوا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، لاکھوں ہی زخمی ہیں، انفرا سٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، زندگی نام کی کوئی چیز غزہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ حماس اور جہاد اسلامی کی قیادت شہید ہوئی ہے، یعنی جسمانی اور دیگر ہر عنوان سے نقصان تو ہوا ہے لیکن غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ستر سال سے زائد قبضہ میں یہ نقصان اس آزادی کے ہدف کے سامنے کچھ بھی نہیں ہےجس کی خاطر فلسطینیوں نے قربانیاں دی ہیں۔
اب اگر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے نقصان کی بات کی جائے تو غزہ کے مقابلہ میں اسرائیل کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی خبروں اور تجزیوں میں پیش کی جانے والی باتو ں کو اکھٹا کر کے اگر بیان کیا جائے تو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو مندرجہ ذیل نقصان اٹھا پرا ہے جو اب تک 77سالوں کی تاریخ میں اسرائیل کے لئے ایک گہرا ترین زخم ہے جو آئندہ کئی سالوں تک بھر نہیں پائے گا۔ نقصانات کے دعووں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
۱۔غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو فوجی جانی نقصان تقریبا دو ہزار کے قریب فوجی ہلاکتیں اور پچیس ہزار فوجیوں کے زخمی اور معذور ہونے کی اطلاعات اب تک مختلف ذرائع ابلاغ پر نشر ہو چکی ہیں۔ اگر کسی بھی ریاست کی افواج کو بڑے پیمانے پر ہلاکت یا معذوری کا سامنا ہو تو اس کا فوری اثر لڑائی کی گنجائش، جوان بااثر کمانڈرز کی کمی اور مورال پر پڑتا ہے۔ اس کے بعد دفاعی آپریشنز میں تبدیلیاں، فوجی پالیسیاں اور ممکنہ طور پر معاہدات یا جنگی حکمتِ عملی کا ازسرِنو جائزہ دیکھنے میں آتا ہے۔
۲۔اسی طرح اگر مالی نقصان کی بات کی جائے تو تقریبا 150ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔
۳۔گذشتہ مہینوں رپورٹ ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایلات کی بندر گاہ مکمل بند ہو چکی ہے۔
۴۔سات اکتوبر سے قبل اسرائیل کے ساتھ عرب حکومتوں کی نارمالائزیشن کا معاملہ بھی اس جنگ کے دوران خسارہ میں چلا گیا ہے اور اب یہ مدعا شاید کئی سالوں تک دوبارہ قوت نہیں پکڑے گا۔یعنی اسرائیل کو علاقائی اور بین الاقوامی سفارتی تعلقات میں خسارہ اٹھانا پڑا ہے۔
۵۔جہاں تک اسرائیل کے اپنے داخلی استحکام کی بات ہے تو اسرائیل کا داخلی استحکام اور عوامی اعتمادمکمل طور پر بشمو ل سیاسی قیادت، فوجی قیادت اور میڈیا کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
۶۔ انفراسٹرکچر اور گھریلو نقصان بھی رپور ہوا ہے جبکہ ہزاروں صیہونی آبادکاروں نے مقبوضہ فلسطین کو اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ یہ جگہ اب ان کے لئے محفوظ مقام نہیں رہی۔
۷۔ بین الاقوامی برادری کا ردعمل بھی اسرائیل کے حق میں نہیں گیا اور اس کی وجہ سے پوری دنیا میں اسرائیل کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
اگر اسرائیل کے مزید نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو خلاصہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں ہزاروں فوجیوں کو کھو دیا (ہلاک یا زخمی اور معذورہوئے)۔ اسرائیل نے 150 بلین ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ اسرائیل نے عرب دنیا کے ساتھ نارملائزیشن کھو دی۔ اسرائیل نے فلسطینی مسئلے کو ختم کرنے کی اپنی کوشش کھو دی اور ناکام ہوا۔ اسرائیل نے اپنی بین الاقوامی شہرت کھو دی۔ اسرائیل نے اپنے غیر ملکی اور تجارتی تعلقات کھو دیے۔ اسرائیل نے سینکڑوں زرہ پوش گاڑیاں اور بڑی مقدار میں گولہ بارود کھو دیا۔ اسرائیل نے یہودیوں کا نیتن یاہو کی حکومت پر اعتماد کھو دیا۔ اسرائیل نے غزہ پر قابو پانے کا اپنا منصوبہ کھو دیا۔ اسرائیل نے دنیا کے لوگوں کے سامنے اپناوقار کھو دیا۔ اسرائیل نے مغربی عوامی رائے کی حمایت کھو دی۔ اسرائیل نے اپنی داخلی سیکورٹی اور استحکام کھو دیا۔ اسرائیل نے اپنی داخلی محاذ کی یکجہتی اور اتحاد کھو دیا۔ اسرائیل نے اپنے جرنیلوں اور اعلیٰ فوجی کمانڈروں کو کھو دیا۔ اسرائیل نے اپنا ناقابل تسخیر فوج ہونے کا بھرم کھو دیا۔ اسرائیل نے وہ ٹیکنالوجی کھو دی جس پر وہ فخر کرتا تھا۔ اسرائیل نے خطے میں اپنی خوفزدہ کرنے کی صلاحیت کھو دی۔ اسرائیل نے کچھ عرب ممالک کے ساتھ اپنے خفیہ اتحاد کھو دیے۔ اسرائیل نے خطے میں اپنا سیاسی مستقبل کھو دیا۔ اسرائیل نے غزہ کی استقامت کے سامنے اپنا تحمل کھو دیا۔ اسرائیل نے اپنی میڈیا کی اپنے عوام اور دنیا کے سامنے ساکھ کھو دی۔نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل اس جنگ میں بری طرح شکست سے دوچار رہاہے اور غزہ آج بھی استقامت کے باعث جنگ کے میدان کے بعد بیانیہ کے میدان میں کامیاب ہوا و ر اب مذاکرات کی میز پر بھی کامیابیاں حاصل کر رہاہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan