اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے مرکزی راہنما اور تنظیم کے سیاسی شعبے کے رکن ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا ہے کہ حماس نہ تو آزادی اور مسلح مزاحمت سےدستبردار ہو گی اور نہ ہی فلسطینی عوام کے بنیادی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا۔ انہوں نے عرب لیگ سے مطالبہ کیا کہ وہ لیبیا میں عرب کانفرنس میں بیت المقدس کو ایجنڈے میں سرفہرست رکھیں۔
اتوار کے روز غزہ کے جنوب میں خان یونس میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین شہید کے چھٹے یوم شہادت سے متعلقہ ایک سیمینار سےخطاب کرتے ہوئے محمود الزھار نے کہا کہ فلسطین میں ریاستی دہشت گردی اور مقدسات پر حملوں کا اسرائیلی ہدف امن کا موقع ضائع کرتے ہوئےجرائم کے لیے جواز پیدا کرنا، القدس کے مسئلے پر امریکا کے ساتھ اھانت آمیزرویہ اختیاروہ جس بحران سے دوچار ہوا ہے، اس سے نکلنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلح مزاحمت کے پروگرام کا احترام کرتے ہوئے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، گو کہ اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے طریقہ کار اور رائے میں اختلاف موجود ہے تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین تمام فلسطینیوں کا ہے۔ حماس مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اسرائیل کے ان ایجنٹوں کو خبردار کرتے رہیں گے جو اسرائیل کو بحرانوں سے نکالنے میں اس کی مدد کر رہے ہیں۔
حماس کے راہنما نے کہا کہ اسرائٓیل اس وقت بدترین داخلی اور خارجی بحران کا شکار ہے، فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی اور بیت المقدس میں غیرقانونی یہودی آباد کاری کی وجہ سےاسے دنیا بھر میں تنہائٓی کا سامنا ہے۔ ایسے میں اسرائیل ان بحرانوں سے نکلنے کے لیے اپنے ایجنٹوں کی مدد سے ایسی کوئی بھی سازش کر سکتا ہے جو خطے کے امن کے لیے سنگین خطرے کا باعث اور فلسطینی عوام کےلیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر محمود الزھار نے عرب لیگ سے مطالبہ کیا کہ وہ رواں ماہ کے آخر میں لیبیا کی میزبانی میں ہونے والی عرب وزراخارجہ کانفرنس میں بیت المقدس میں یہودی آباد کاری، فلسطین میں اسلامی اور مسیحی مقدسات پر حملوں اورمسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی جیسے واقعات کو کانفرنس کے ایجنڈے میں سرفہرست رکھیں۔
انہوں نے عرب ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ نام نہاد مذاکرات کی حمایت کے بجائےاسرائیلی ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیتے ہوئے فلسطین کےمسئلے کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کی غزہ آمد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کو ان کی آمد سے کوئی بڑی امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چائیں، جو اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کی حمایت نہیں کر سکتا وہ فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا اور جواسرائیل کے جنگی جرائم کا تذکرہ بھی نہ کرے اس سے خیر کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں جمہوریت کے چیپمیئن جمہوریت کے فروغ کے دعوے کر رہے ہیں لیکن حقیقی جمہوریت کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بان کی مون نے صرف غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے کوششوں کی یقین دہانی کرائی لیکن عملی طور پر وہ اسرائیل سے ناکہ بندی اٹھانے کا کوئی مطالبہ نہیں کر سکے