فلسطین میں پانی کے امور کے ماہرمنذر شبلاق نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں معاشی ناکہ بندی اور پانی صاف کرنے سے متعلق بنیادی سامان کی عدم فراہمی کے باعث شہر میں پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں رہا۔ غزہ میں صرف 10 فیصد افراد کو صاف پانی میسر ہے جبکہ دیگر شہری آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ہفتے کے روز مرکز اطلاعات فلسطین سے بات چیت کرتے ہوئے منذر کا کہنا تھا کہ غزہ میں پانی کا مسئلہ نہایت تشویشناک اور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، شہریوں کے پاس پانی صاف کرنے کے لیے فلٹرز موجود نہیں جبکہ پائب لائنوں کی صفائی کا بھی کوئی بندوبست موجود نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں مختلف کنوؤں سے پانی کے اخراج میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ قلت بڑھ کر 80 ملین مکعب میٹر سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ پانی اور ارضیات کے امور کے تجزیہ نگارنے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر غزہ کی پٹی میں پانی کا بحران بدستور قائم رہا تو آئندہ چند برسوں میں اس سے انسانی المیہ رو نما ہوسکتا ہے۔ منذر سبلاق کا کہنا تھا کہ مضر صحت پانی کے پینے سے شہریوں میں متعدد موذی امراض جنم لے رہے ہیں، بچوں اور عمر رسیدہ افراد میں قوت مدافعت میں کمی کے باعث متاثرین کی تعداد زیادہ ہے۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ معاشی ناکہ بندی کے ذریعے فلسطینیوں کا پانی بند نہ کرے اور پانی صاف کرنے اور نئے کنوؤں کی کھدائی کے لیے بنیادی سامان کی فراہمی کو یقینی بنائے۔