امریکی نظام سیاست ہمیشہ سے میلوں کے مفادات کا المیہ ہے۔ اس کی ایک واضح مثال سرزمین فلسطین پر قائم کی جانے والی ریاست اسرائیل کی قیام سے مسلسل حمایت کر اور ریاست کی جانب سے فلسطینی مظلوموں کے خلاف روار کھے جانے والے بد ترین اور انسانیت سوز مظالم کی پردہ پوشی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں بالخصوص سلامتی کونسل میں فلسطینیوں کے من میں آنے والی قرار دادوں کو اسرائیل کے جن میں ویٹو کر نامریکی تاریخ کا حصہ ہے۔ امریکا کی جانب سے غاصب ریاست اسرائیل کی سرپرستی ہمیشہ سے تر جیحات میں شامل رہی ہے و حالا که یکی اسرائیلی و پشت گرد ہیں کہ جنہوں نے امریکی بھری جوان کو ایس ایس لبرٹی کو 1967 و میانی دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجہ میں تین درجن کے لگ بھگ امریکی نیول میرین ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دوسو کے قریب افراد شدید زخمی ہوئے تھے ، جن میں سے اکثر بعد ازاں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح صہیونیوں کی مہارت ریاست اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد امریکی صدور کے خلاف جاسوسی بھی کر تیار ہی ہے اور سامان سے جاسوسی کا کام جاری ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ امی کی اہم سیاست نے اپنے ہی شہریوں کے کیس سے ایک اپنی غاصب اور جاری ریاست کی سرپرستی کا نیا و اشعار لکھا ہے جو نہ صرف اسپین کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خطے کی دوسری ریاستوں اور امن پسند انسانوں کے لیے خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ خو دامریکی شہریوں کے لیے بھی اذیت کا باعث بن سکتی ہے۔ یہاں امریکی شہر کی دن رات محنت کر کے حکومت کو ٹیکس ادا کر تے ہیں وہاں دوسری طرف امریکی شہر یار کے کان سے جمع ہونے والی بھاری رقم کو اسرائیل کی فوجی امداد کے نام پراربوں ڈالر میں امریکی سر کار شری کرتی ہے۔ اس فوری امداد کے بعد اسرا کال نہ صرف فلسطین کے مظلوم اور کالے عوام کے خلاف الظلم کی داستانیں رقم کر تا ہے بلکہ جملے میں لے کر دی اور علمی اور انکار کو پہچانے میں استعمال کر تا ہے ڑھنے والوں امریکی صدر نے اللہ فلسطین کا دورہ کیا جو کہ فلسطین معنی جس پر اسرائیل نامی ایک ناسب ریاست قائم ہے ۔ اس دورے کے دوران دنیا بھر کے سیاستدانوں نے بہت کچھ کیا اور بہت کچھ میڈ یا پر ملے میں آیا۔ یہاں تک باتیں سامنے آتی رہیں کہ امریکی صدر سیر و علم معاہدے کے تحت فلسطین اور اسرائیل کے مسئلہ کو حل کر دیں گے اور یہاں پر امن وامان قائم ہو گا۔ حقیقت میں الموس مغربی پاور بالعموم سیاستند اقوال اور تجزیہ کاروں کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہے کہ مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان میں قائم کر نے کا نہیں
در اصل حقیقت یہ ہے کہ فلمیں ایک ایک سر زمین شد کیا ہے جہاں 1948 تک یہودی، عیسائی اور مسلمان اقوام کے ساتھ ساتھ دیگر ہوئی اقوام آباد تھیں۔ 1948 میں برطانوی استعمار کی سرپرستی اور امریکی آشیر باد کے نتیجہ میں فلسطین اور فلسطینیوں کے وطن پر ایک نئی ریاست کو وجود دیا گیا جو کہ دنیا بھر سے لا کر بسائے گئے ، غاصب صیح ایران کیا ریاست اسرائیل ہے۔ اب جب بھی منہ قسطیں کیا بات ہو گی تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مسئلہ فلسطین امین سے زیادہ انسان کو مٹا گیا ہے اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ فلسطین ، فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل باہر سے آۓ ہوۓ غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست ہے۔ بہر حال امریکی صدر نے مونہ ملین کے دورے میں میرا عظم معاہدے کو متعارف کروایا۔ حقیقت میں یہ کام انہوں نے ہمیشہ کی طرح میں نے ان کے ساتھ اپنی وفاداری کا کیا ہے کے لیے الہام ایا کیو نکہ وہ جاتے ہیں کہ صرع یوں کی ٹرافی جہاں ان کی سیاست پر اثرانداز ہو سکتی ہے، ہاں ان کی صدارت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے یا پھر شاید ان کو یہ خوف بھی اسی تھا کہ مقبوضہ فلسطین میں کرنے کے بعد میں نیوں کے مفادات سے ہٹ کر کوئی بات کی توانہیں ماضی کے ایک سابق امریکی صدر کی طرح ملی یا نہ کر دیا جائے ۔ ان تمام شکوک و شبہات نے امریکی صدر کو موتیوں کی وفاداری پر مجبور کر رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر نے صہیونزم کے پیروکار ہونے کا اعلان بھی کیا ہے اور شاید یہ شارٹ کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ مین نام کا پیروکار ہے۔ جو پانی کی اور ان سے قبل ٹرمپ بھی یہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ صہیونیوں کو عرب دنیا میں تسلیم کروائیں تا کہ صہیونیوں کے لیے راستے ہموار ہو سکیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکا کے کہنے پر مشرق وسطی کی حکومتیں صہیونیوں کے ساتھ تعلقات بنانے کو اپنے لیے باعث شرف کچھ رہی ہیں ملا کہ یہ سب کاری کی بدترین غلطی ہے۔ امریکی صدر نے یہ ایوان کے ساتھ اپنی وفاداری کا ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے غاصب اسرائیل سے براہ راست سعودی عرب کی طرف سفر کیا اور یہ صہیونیوں کو اپنی وفاداری کا ایک اور ثبوت پیش کیا۔ بائیڈن نے جہاں ایک طرف اپنی وفاداری ثابت کی ہے وہاں ساتھ ساتھ سعودی عرب کے حکمرانوں کو اسرائیل کے ساتھ مزید قریب کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس عنوان سے مسلمین کی حریت پسند قیمت ، فاسلمین کے عوام سمیت دنیا بھر کے فلسطینی حامیوں کی جو آپ سے عرب اسرائیل تعلقات کے موضوع پر کشید کی جارہی ہے ۔ فلسطین امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر تو باپیران کو ہر کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے کیو نکہ فلسطینی دھڑوں کا حلقہ فیصلہ ہے کہ دو غاصب صید ہو اس کی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے الہند امریکی صدر کی صہیونی و فاداری تو ایک طرف لیکن دورے کے بنانے کی بات کی جائے تو خاطر خواہ نمائی حاصل نہیں ہوۓ۔ دوسری طرف اسرائیل بھی شدید قسم کے سیاسی بحران کا شکار ہے ، جس کی وجہ سے اسرائیل پہلے سے مسلمان عوام اور
ار داد و کار در اور غیر معلم ہو چکا ہے۔ موجود امریکی صدر جو ہائیڈان کے مقبول این دور سے اس سے بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ جس طرح ماضی میں امریکی صدور قہوہ فلمیں آتے رہے اور یہ ایوان کے سیارات کے اونٹ کی خاطر اقدامات اٹھاتے رہے ،اسی طرح جو بائیڈن بھی کوئی یہ کام انجام دینے میں ناکام نظر آئے ہیں بلکہ ان کے اس دورے میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ میں پیوں کو باور کر وایا جائے کہ امر کا یو ٹیوب کے ساتھ ہے اور ان کی پشت پناہی کرے گا۔ بہی وہ نقطہ ہے جس نے امریکی عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ امریکی نظام سیاست آخر دنیا بھر میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف کھڑا ہونے کی بجائے خالہ اور ظلم کر نے والے سیونی طاقت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے ۔ یہی حقیقت میں امریکی نظام سیاست کا مکار اور سیاہ چہرہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف امریکی شہریوں کے لیے عیاں ہو رہا ہے بلکہ اقوام عالم اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہیں کہ امر یکاد نیا میں مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی جڑ ہے۔