فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم” فلسطین ایسوسی ایشن برائےسولین حقوق” نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے بیت المقدس کے ان علاقوں میں بچوں کے خلاف آپریشن تیز کر دیے جہاں اسرائیلی انتظامیہ یہودی آبادیوں کو وسعت دے رہی ہے. انسانی حقوق تنظیم کی جانب سے جاری ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی پولیس اور فوج نے مسجد اقصیٰ کے جنوب میں سلوان کے مقام سے تقریبا 300 فلسطینی بچوں کو حراست میں لے رکھا ہے. ان بچوں کی عمریں 10 سے 14 سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں. رپورٹ کے مطابق بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ سے کچھ فاصلے پربستان اور سلوان کے مقامات اسرائیلی بلدیہ کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں جہاں نہ صرف فلسطینیوں کے کئی مکانات مسمار کیے جا چکے ہیں بلکہ بڑی تعداد میں شہریوں کو وہاں سے نکل جانے پرمجبور کیا جا رہا ہے. کم عمر بچوں کی گرفتاری بھی فلسطینیوں پردباٶ بڑھانے کا ایک حربہ ہے. رپورٹ کے مطابق قابض فوج نے حال ہی میں کچھ بچوں کو بھاری جرمانے وصول کرنے کے بعد رہا کیا. رہائی پانے والے نونہانوں سے پانچ پانچ ہزار شیکل جرمانہ وصول کیا گیا. انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ گرفتار بچوں پر الزام ہے کہ وہ یہودی کالونیوں پر پتھراٶ کرتے ہیں جس سے یہودی آبادکاروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں. دوسری جانب مقبوضہ بیت المقدس کے شہری بچوں کی مسلسل گرفتاریوں پر شدید تشویش اور پریشانی سے دو چار ہیں. بچوں کو اکیلے گھروں سے باہر جانے سے روکا جا رہا ہے تاہم اسرائیلی فوج اسکولوں سے واپس آنے یا اسکول جانے والے بچوں کو بھی راستے میں گرفتار کر لیتی ہے.