مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
کلب برائے اسیران نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ پر مسلط کی گئی نسل کش جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک دو برس کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے سمیت مقبوضہ بیت المقدس گورنری سے کم از کم اکیس ہزار فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے۔
کلب برائے اسیران نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ یہ گرفتاریاں کئی دہائیوں میں سب سے بڑے پیمانے کی مہم ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ کارروائیاں محض تعداد تک محدود نہیں رہیں بلکہ ان کے ساتھ سنگین جرائم بھی شامل رہے جن میں موقع پر فائرنگ کر کے شہید کرنا بھی شامل ہے۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ قابض اسرائیل نے فلسطینی اسیران کے خلاف سزائے موت نافذ کرنے کے لیے ایک نیا قانون لانے کی قانون سازی کی کوششیں بھی شروع کر رکھی ہیں۔
کلب برائے اسیران کے مطابق منگل کی نابلس اور عقابہ میں دو فلسطینی اسیران کے گھروں کو دھماکوں سے تباہ کرنا قابض اسرائیلی اداروں کی اسی مسلسل پالیسی کا حصہ ہے جو پورے فلسطینی عوام کے خلاف اجتماعی سزا کے نفاذ اور مغربی کنارے میں اسیران کے خاندانوں کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔
گذشتہ برس اگست میں جاری ایک فلسطینی رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیل نے سنہ 2023ء کے سات اکتوبر کو غزہ کے خلاف نسل کش جنگ شروع کرنے کے بعد سے لے کر اگست تک مغربی کنارے میں کم از کم اٹھارہ ہزار پانچ سو فلسطینیوں کو گرفتار کیا تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت دس ہزار آٹھ سو فلسطینی اسیران قید ہیں جن میں انچاس خواتین اور چار سو پچاس بچے شامل ہیں۔ یہ اعداد جیلوں میں فلسطینی اسیران کی نگرانی کرنے والے اداروں نے رواں برس اگست کے آغاز میں جاری کیے تھے۔
مغربی کنارے میں قابض اسرائیل کی جانب سے دو برس سے جاری اس جارحانہ مہم کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار پچاسی سے زائد فلسطینی شہید اور گیارہ ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ اُس مسلسل نسل کش جنگ کا تسلسل ہے جو قابض اسرائیل نے غزہ کے خلاف مسلط کر رکھی ہے۔