غزہ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
فلسطین انفارمیشن سینٹر ’’معطی‘‘ نے اپنی تازہ دستاویز میں انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں جاری نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے اب تک 600 سے زائد فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو گرفتار کیا ہے۔ یہ ہولناک تعداد فلسطینی شہروں اور بستیوں میں خواتین کو براہِ راست نشانہ بنانے کے غیر معمولی اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان گرفتاریوں میں رات کے اندھیرے میں چھاپے، گھروں پر یلغار اور متعدد خواتین کو مختلف تفتیشی مراکز میں منتقل کرنا شامل ہے۔ مرکز کے مطابق چالیس سے زائد اسیر خواتین پر وہ الزامات عائد کیے گئے ہیں جنہیں قابض اسرائیل ’’سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی‘‘ قرار دیتا ہے حالانکہ مرکز کا کہنا ہے کہ ان میں سے کئی پوسٹس محض ذاتی نوعیت کی تھیں۔
’’معطی‘‘ نے یہ بھی واضح کیا کہ اب تک 48 فلسطینی خواتین صیہونی جیلوں میں قید ہیں جن میں یونیورسٹی کی طالبات، مائیں اور سماجی خدمات کے میدان میں سرگرم کارکن شامل ہیں۔
رپورٹ میں اسیر خواتین کے اہل خانہ اور ان کے وکلاء کی جانب سے مسلسل شکایات بھی درج کی گئی ہیں جن میں سخت طرزِ حراست اور بنیادی طبی سہولیات کی سنگین کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
مزید برآں بارہ خواتین کو ظالمانہ انتظامی حراست میں منتقل کیا گیا ہے جو ایک ایسا جابرانہ طریقہ کار ہے جس کے تحت بغیر کسی الزام یا مقدمے کے غیر معینہ مدت تک قید رکھا جا سکتا ہے۔
’’معطی‘‘ کے نزدیک اس قسم کی گرفتاری فلسطینی خواتین کے خلاف قابض اسرائیل کے ان اوزاروں میں شامل ہے جنہیں وہ ان پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
مرکز کا کہنا ہے کہ فلسطینی خواتین کو گرفتاریوں کا نشانہ بنانا اصل میں فلسطینی سماجی ڈھانچے کو کمزور کرنے کی ایک گھناؤنی کوشش ہے کیونکہ خواتین خاندانوں کی نگہداشت اور معاشرے کے سہارے کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اور جب انہیں گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کا صدمہ اور اثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔