اسرائیلی جیل میں مقید ایک 18 سالہ جہاد خالد المطور کے اہل خانہ انکشاف کیا ہےکہ ہے دوران حراست مطول کو اسرائیلی فوج نے قتل کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اسیر کس حال میں ہے. ادھر دوسری جانب مرکز اطلاعات فلسطین کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق جیلوں میں مقید فلسطینی خواتین پر یہودی درندے ان کی عزت پر حملوں کی کوشش کرتے ہیں.المطور کےاہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو تین روز قبل الخلیل سے حراست میں لیا گیا.گرفتاری کے وقت بھی اسے نہایت وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد اسے “عتصیون” نامی جیل میں لے جایا گیا جہاں اسے کئی گھنٹے تک رسیوں میں جکڑ کر الٹا لٹکا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جس کے باعث اس کی حالت نہایت تشویشناک ہو چکی ہی. خالد المطور کے والدین نے بتایا کہ اسے قابض صہیونی فوج نے 36 گھنٹے تک بغیر کچھ کھلائے پلائے بیڑیوں میں جکڑے رکھا ہے اور اس پر مسلسل تشدد کیا جاتا رہا.انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپنے اسیر بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے مدد کی اپیل کی ہے. اسیر کے والدین اور اہل خانہ کا کہنا ہےکہ انکا بیٹا بے قصور ہے اور صہیونی فوج نے اسے بلاجواز گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ہے. اسرائیلی فوجی انہیں ان کے بیٹے سے محروم کرنا چاہتے ہیں.ادھر دوسری جانب مرکزاطلاعات فلسطین کے ذرائع کے مطابق حال ہی میں گرفتار کیے گئے بعض کم عمر فلسطینی لڑکوں پر جسمانی تشدد کےساتھ ساتھ جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں. ایک دوسرے ذرائع کے مطابق صہیونی فوجی اسیر فلسطینی خواتین کی بے حرمتی کی بھی کوشش کر رہے ہیں. اسیرخواتین کو اس سلسلے میں کئی دھمکیاں بھی دی جا چکی ہیں.