مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
قابض اسرائیلی جیلوں میں سزا کا عمل لوہے کی دیواروں اور بیڑیوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ انسان کے بنیادی ترین حق یعنی خوراک تک پھیل جاتا ہے۔
یہ دل دہلا دینے والی حقیقت رہا ہونے والے اسیران ابراہیم بریص اور بلال موسى نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بیان کی جو گذشتہ عرصے میں طوفان الاقصیٰ معاہدے کے تحت آزادی پانے سے قبل قید و بند کی اذیت ناک زندگی سے گزرے۔ ان کے مطابق روزمرہ کھانا انسانی ضرورت کے بجائے منظم تذلیل اور وقار توڑنے کا ہتھیار بنا دیا گیا تھا۔
اعتراض پر جبر اور سزا
رہا ہونے والے اسیر ابراہیم بریص نے بتایا کہ جیلوں میں خوراک کسی بھی طبی یا انسانی معیار کے مطابق فراہم نہیں کی جاتی تھی بلکہ یہ واضح طور پر اجتماعی سزا کی پالیسی کا حصہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ کھانا گھنٹوں شدید گرمی میں پڑا رہتا اور خراب ہونے کے باوجود بدبو کے ساتھ اسیران کو پیش کیا جاتا جبکہ وہ انسانی استعمال کے قابل ہی نہیں ہوتا تھا۔
بریص کے مطابق کسی قسم کا اعتراض کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ ایسا کرنے پر فوراً جبر یا سزا مسلط کر دی جاتی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ توہین صرف ناقص خوراک تک محدود نہیں تھی بلکہ جیلروں کا جان بوجھ کر اختیار کیا گیا رویہ اس سے بھی زیادہ ذلت آمیز تھا۔ جیلر اسیران کے سامنے اپنے جوتوں سمیت کھانے کے برتنوں میں پاؤں ڈال دیتے تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ بھوک مٹانے سے پہلے عزت چھیننا مقصود ہے۔ یہاں تک کہ روٹی جو خوراک کا سب سے بنیادی جز ہے زمین پر پھینک دی جاتی اور اسیران کو مجبور کیا جاتا کہ یا تو اسے اٹھا لیں یا بھوکے رہیں۔ یہ منظر روزانہ کی تذلیل کی پالیسی کا خلاصہ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پرندوں کی بیٹ کھانے کے برتنوں میں گر جاتی اور نہ اسے ہٹایا جاتا اور نہ ہی کھانا بدلا جاتا۔ اسیران کے سامنے صرف ایک ہی انتخاب ہوتا تھا کہ آلودہ خوراک کھائیں یا فاقہ کریں۔
ایسا کھانا جو انسان کے لائق نہیں
دوسری جانب رہا ہونے والے اسیر بلال موسى کی گواہی بھی کم ہولناک نہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ کئی مواقع پر اسیران کو ایسا کھانا دیا گیا جو انسانی استعمال کے قابل ہی نہیں تھا۔
موسى نے بتایا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے سڑا ہوا کھیرا دیکھا جس سے شدید بدبو اٹھ رہی تھی اور جو ایندھن سے آلودہ تھا مگر اس کے باوجود اسیران کو پیش کر دیا گہا۔ اس موقع پر اسیران کی صحت اور سلامتی کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ تذلیل کی حدیں اس وقت پار ہو گئیں جب انہوں نے ایک کتے کو اسیران کے کھانے کے برتن میں پاؤں رکھتے دیکھا۔ اس کے بعد وہی کھانا قیدیوں کو دے دیا گیا۔ یہ واقعہ قابض جیل انتظامیہ کی جانب سے انسانی وقار کی دانستہ پامالی کی واضح مثال ہے۔
تشدد کا مستقل طریقہ کار
بلال موسى نے زور دے کر کہا کہ یہ واقعات کسی ایک موقع تک محدود نہیں تھے بلکہ بار بار پیش آئے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ انفرادی حرکات نہیں بلکہ ایک مستقل اور منظم تشدد آمیز طریقہ کار ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس صورت حال کے اثرات صرف نفسیاتی نہیں رہے بلکہ متعدد اسیران آلودہ خوراک کھانے کے بعد جسمانی تکالیف اور پیچیدگیوں کا شکار ہوئے۔ اس سب کے باوجود نہ تو طبی دیکھ بھال فراہم کی گئی اور نہ ہی جیل انتظامیہ کو ان صحت نقصانات پر کسی قسم کی جواب دہی کا سامنا کرنا پڑا۔
یقیناً یہ تفصیلی شہادتیں جو آزادی کے بعد منظر عام پر آئی ہیں قابض اسرائیل کی جیلوں میں اسیران کی زندگی کے ایک تاریک پہلو کو بے نقاب کرتی ہیں جہاں خوراک کو ایک سست مگر ہلاکت خیز ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار نفسیاتی اذیت اور دانستہ تذلیل کو یکجا کرتا ہے اور ان تمام عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے جو قیدیوں کو باعزت خوراک اور انسانی سلوک کا حق دیتے ہیں۔
