استنبول ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
ترکیہ کے شہر استنبول میں پیر کے روز عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں اس بات پر مکمل اتفاق کیا گیا کہ غزہ کی حکمرانی کا حق صرف اور صرف فلسطینیوں کا ہے اور کسی بھی بیرونی مداخلت یا “نظامِ وصایت” کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
ترکیہ کے وزیرِ خارجہ ہاکان فیدان نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا کہ اجلاس میں سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن، پاکستان اور انڈونیشیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ “غزہ کی حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، وہی اپنی سرزمین، سلامتی اور حقوق کے ذمہ دار ہیں۔”
ہاکان فیدان نے کہا کہ “غزہ تباہی اور قیامت خیز حالات سے گزر رہا ہے، اسے دوبارہ تعمیر کی ضرورت ہے۔ زخم خوردہ غزہ کے باسیوں کو اپنے گھروں میں واپس جانا چاہیے اور کسی نئے نظام کی ڈکٹیشن یا بیرونی تسلط کو قبول نہیں کیا جا سکتا”۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی مسئلے کے کسی بھی حل کو ایسے نئے تنازعات پیدا نہیں کرنے چاہئیں جو مزید پیچیدگیاں پیدا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ فلسطینی دھڑوں، بالخصوص حماس اور فتح کے درمیان مصالحت عمل میں آئے جو فلسطین کی نمائندگی کو عالمی سطح پر مضبوط بنائے گی۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہوا جب گذشتہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے سات ممالک کے سربراہان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں ٹرمپ نے اپنی اُس متنازعہ منصوبے کی تفصیلات پیش کیں جس کے تحت قابض اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ اس منصوبے کا مقصد قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری نسل کشی پر پردہ ڈالنا تھا جو سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری ہے۔
قابض اسرائیل امریکی اور یورپی حمایت کے سہارے غزہ کی پٹی پر بدستور اجتماعی قتلِ عام، تباہی، جبری نقل مکانی، بھوک اور محاصرے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی جنگی مشین مسلسل خواتین، بچوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے احکامات سمیت عالمی برادری کی تمام اپیلوں کو یکسر نظرانداز کر رہی ہے۔
غزہ پر قابض اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ میں اب تک دو لاکھ انتالیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ سیکڑوں ہزار فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ گیارہ ہزار سے زیادہ افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ غزہ کے بیشتر علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں جہاں قحط اور بیماریوں نے مزید جانیں نگل لی ہیں۔
یہ اعداد و شمار صرف ایک المناک حقیقت نہیں بلکہ اس امر کی گواہی ہیں کہ قابض اسرائیل کی “گریٹر اسرائیل” کی پالیسی، دراصل فلسطینی قوم کے وجود کو مٹانے کی خوفناک سازش ہے۔