مصر کی سب سے قدیم جماعت اخوان المسلمین نے صدر حسنی مبارک کے اس حالیہ عوامی خطاب کو مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے آئندہ صدارتی امیدوار نہ بننے کا اعلان کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس خطاب میں عوام کے لیے کچھ نہیں تھا اور وہ اب بھی حسنی مبارک سے صدارت چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اخوان المسلیمن کے ترجمان اور شعبہ اصلاح کے رکن ڈاکٹر محمد مرسی جرمن نیوز ایجنسی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران بتایا کہ مصری صدر کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان قابل مذمت ہے اور ان کے خطاب سے عوام کو کچھ نہیں ملا۔ مرسی نے کہا کہ مصری صدر کی جانب سے اصلاحات کا اعلان بہت دیر سے آیا ہے لوگ اس کا پچیس جنوری سے قبل سے مطالبہ کر رہے تھے تاہم یہ اصلاحات ملک کے طول و عرض میں امڈ آنے والے 80 لاکھ عوام کی واپسی کے لیے انتہائی ناکافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت حسنی مبارک کے خطاب پر اپنا تفصیلی ردعمل بھی دے گی مگر وہ اس سے قبل ان کے اس خطاب کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سے لاکھوں لوگ قاھرہ کے میدان تحریر میں جمع ہیں، حسنی مبارک کا خطاب ابھی ختم بھی نہ ہونے پایا تھا کہ میدان تحریر میں موجود لاکھوں لوگوں نے اسے مسترد کر دیا اور مبارک کے خلاف زبردست نعرے بازی کی اور ان سے فوری عہدہ صدارت چھوڑنے کا مطالبہ کردیا۔ منگل کے روز بھی مصر کے مختلف اضلاع میں 40 لاکھ فلسطینیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا مظاہرین قاھرہ کے وسطی میدان ’’تحریر‘‘ میں جمع تھے۔ مصر کی فوج نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس عوامی احتجاج کے خلاف قوت استعمال نہیں کرے گی۔ قدس پریس نے احتجاج میں شریک رہنماؤں کے حوالے سے بتایا کہ وہ اپوزیشن کی جماعتوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ لاکھوں افراد کا ملین مارچ جاری رکھا جائے گا جس سے صدر کو یہ واضح پیغام دینا مقصود ہے کہ عوام ان کے جانے سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہیں۔ اپوزیشن کے قائدین نے کہا کہ صدر حسنی مبارک کے خلاف یہ احتجاجی مظاہرہ ’’یوم غضب‘‘ تک جاری رہے گا۔ اور جمعہ کے روز عوام قصر صدارت، سرکاری ریڈیو، سرکاری ٹی وی اور دیگر حکومتی عمارتوں کی جانب پیش قدمی کردیں گے۔ آٹھویں روز بھی لاکھوں عوام کا ایک ہی نکتہ پر اتفاق ہے اور وہ ہے مصری صدر کے نظام کے خاتمے کا مطالبہ۔ مصر کی فوج بھی اس عوامی مطالبے کی تائید کرکے عوام کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرا چکی ہے۔