(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کے جبالیا مہاجر کیمپ میں جہاں صبر کی چٹانوں پر لہریں ٹکرا رہی ہیں حذیفہ سمیر الکحلوت سنہ 1984ء کے 11 فروری کو ایک فلسطینی خاندان میں پیدا ہوئے، جنہیں سنہ 1948ء میں قابض اسرائیل نے ان کے گاؤں “نعلیا” سے مہاجر کیا تھا۔
یہاں غزہ کے قلب میں ان کی جڑیں نکبہ کی مٹی پر پروئیں اور ان کی شخصیت دکھ اور مزاحمت کی آوازوں کے درمیان شکل اختیار کرتی گئی، یہاں وہ صمود کی روشنی اور مقبوضہ زمین کے نسلوں کے لیے امید کی علامت بن گئے۔
انہوں نے لقب “ابو عبیدہ” اپنایا تاکہ ان کا نام مزاحمت کے آسمان پر روشن رہے، ثابت قدمی اور فلسطینی اصولوں کے وفاداری کی علامت بن جائے۔
انہوں نے اسلامی یونیورسٹی میں عقیدہ پڑھا، علم کو ہتھیار سے پہلے اپنا ہتھیار بنایا اور پھر سنہ 2002ء سے القسام بریگیڈز کے ساتھ اپنے جدوجہد کے سفر کا آغاز کیا، بعد ازاں عسکری ونگ کے رُوحانی آواز کے طور پر فلسطینی عزم کی نمائندگی کرنے لگے۔
ان کا میڈیا میں پہلا ظہور دو اکتوبر سنہ 2004ء کو ہوا، جب انہوں نے جبالیا کیمپ پر قابض اسرائیل کے حملے کے بارے میں بات کی، تب سے ان کی آواز حقیقت کی رہنما بن گئی، الفاظ کو مختصر کرتی اور ہر پیغام کو فلسطینی عوام کے دل کے لیے زندگی بخشتی۔
جون سنہ 2006ء میں ان کی شہرت بین الاقوامی سطح پر بڑھ گئی، جب انہوں نے “الوہم المتبدد” آپریشن میں قابض اسرائیل کے فوجی گیلاد شالیط کو قید کرنے کا اعلان کیا اور مزاحمت کے میدان میں ان کے ہر قدم کو قومی یادگار میں کندہ کر دیا گیا۔ قابض اسرائیل کے سنہ 2008ء، 2012ء اور 2014ء کے حملوں کے دوران، وہ ایک ناقابل تسخیر پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہے اور قابض دشمن کی ان کو شہید کرنے کی کئی کوششیں ناکام ہوئیں۔
دنیا کے گھروں میں گونجتی آواز
ابو عبیدہ صرف میڈیا یا عسکری منصوبہ بندی تک محدود نہ رہے، بلکہ وہ مزاحمت اور عوام کے درمیان ایک پل بن گئے، ہر فلسطینی گھر میں ان کی آواز گونجتی، صمود اور عزم کا پیغام لے کر اور فتح کی راہ دکھاتی رہی۔ سنہ 2023ء میں غزہ پر سب سے سخت حملے کے دوران، وہ “طوفان الاقصی” آپریشن کے بعد منظر عام پر آگئے۔
تیس اگست سنہ 2025ء کو قابض دشمن نے اس علامت کو ختم کرنے کی کوشش کی اور ابو عبیدہ کو ان کے گھر پر کیے گئے حملے میں ان کی زوجہ اور بچوں سمیت شہید کر دیا، لیکن ان کی شہادت اختتام نہیں تھی، بلکہ مزاحمت کے راستے میں روشنی اور فلسطینی عزم کی راہ روشن کرنے والا آغاز بن گئی۔
ابو عبیدہ سکرین پر خاموش تھے، لیکن ہر لفظ میں چیخ رہے تھے۔ دُنیا کے لیے امید کے در کھول رہے تھے، ان کی شخصیت، طاقت اور انسانیت، علم اور ہتھیار، فکر اور صمود کے درمیان توازن کی علامت تھی۔
انہوں نے اپنی شخصیت کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ ایک سپاہی اپنے تمام اوزار اپنے وطن اور عوام کے لیے استعمال کرتا ہے اور ایک عزم و اعتماد کی میراث چھوڑ گئی، جس نے ان کا نام قوم کی یادداشت میں کندہ کر دیا، فلسطین کے چٹان کی طرح ہمیشہ قائم رہے گا، جسے قابض کی ہوا بھی نہیں ہلا سکتی۔
ابو عبیدہ صرف ایک سرکاری ترجمان نہیں تھے، بلکہ قوم کا دھڑکتا دل، مزاحمت کی بازگشت اور فلسطینی آزادی و عزت کا روشن نشان تھے، جو ہر حال میں زندہ رہے گا، چاہے ظلمت کی کوئی بھی طاقت اسے مٹانے کی کوشش کرے۔
بڑا کمانڈر شہید ہو گیا
القسام بریگیڈز کے نئے عسکری ترجمان نے الکحلوت کی تعزیت میں کہاکہ ہم اپنی قوم اور عوام کو بڑا کمانڈر حذیفہ سمیر عبداللہ الکحلوت “ابو ابراہیم” دے رہے ہیں جو دو دہائیوں تک دشمنوں کو پریشان کرتے اور مؤمنین کے دلوں کو خوش کرتے رہے اور اللہ کے حضور خیر حالت میں پہنچ گئے۔
اُنہوں نے مزید کہاکہ اللہ کے ساتھ سچائی کی سب سے بڑی علامت یہی ہے کہ اللہ ان کا ذکر دنیا میں بلند کرے اور زمین پر ان کے لیے مقبولیت قائم کرے۔
انہوں نے تعزیت کا اختتام اس بات سے کیا کہ انہوں نے القسام کے میڈیا نظام کی قیادت کی، اپنے بھائیوں کے ساتھ وہ سب کچھ قلمبند کیا جو دوست اور دشمن نے شاندار کارکردگی کے طور پر دیکھا اور دنیا کو طوفان الاقصی کے واقعات اور غزہ کے مجاہدین کی بہادری کی خبر دی۔
